جمعرات‘ 14؍ ذیقعد 1440ھ‘ 18؍جولائی 2019ء
سینیٹ کمیٹی میں شیشہ سے پابندی اٹھانے کی تجویز
سینیٹ میں کیا اب یہی کام رہ گیا تھا کرنے کے لیے۔ باقی سارے مسائل حل ہو گئے ہیں کیا۔ سینیٹ ملک کا اعلیٰ ترین قانون ساز ادارہ ہے۔ وہاں اگر ہمارے معزز ارکان ہی ایسے سطحی معاملات پر زور بیاں صرف کریں گے تو لوگ کیا کہیں گے۔ ویسے بھی سب جانتے ہیں کہ شیشہ پینا نہایت خطرناک ہے۔ اب یہ منطق نرالی ہے کہ ساری دنیا کے ریسٹورنٹس میں شیشہ کیفے قائم ہیں۔ ان پر پابندی نہیں ہے۔ اس لیے پاکستان میں بھی شیشہ کیفے پر پابندی نہیں ہونی چاہئے۔ اب کوئی ان محترم سینیٹر سے جو پابندی ہٹانے کے محرک ہیں سوال کرے کہ جناب اس طرح تو دنیا بھر میں اور بھی بہت سی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ وہاں نائٹ کلب ہیں۔ اوپن ساحل سمندر ہیں۔ مے خانے ہیں۔ اب اور کون کون سی خوبیاں گنوائیں۔ کیا اس بنیاد پر پاکستان میں ان کی بھی اجازت ملنی چاہئے۔ شیشہ کیفے سے صرف یہ حقہ بنانے والے‘ ان کے فلیورڈ تمباکو بنانے والے اور ریسٹورنٹ والے ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ شیشہ استعمال کرنے والے ان شیشہ کیفوں میں جانے والے باقی سب خسارے میں ہوں گے۔ ہمارے ہاں جس طرح نوجوان لڑکے ہوں یا لڑکیاں شیشہ سمیت دیگر منشیات کی طرف راغب ہو رہے ہیں اس کے بعد تو کسی بھی صورت شیشہ کیفوں کی اجازت نہیں دی جا نی چاہیے۔ یہ تو سراسر زیادتی ہو گی۔ وہ کہتے ہیں ناں…
عجیب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں
لگا کے زخم نمک سے مساج کرتے ہیں
حکومت ایسے کسی کام کی ہرگز اجازت نہ دے اور معزز ارکان سینیٹ خود ہی اس تجویز کو رد کر کے منشیات سے نفرت کا ثبوت دیں اور اس شیش ناگ کا سر اٹھانے سے پہلے کچل دیں۔
٭٭٭٭
یوٹیلٹی سٹورز پر اشیائے صرف کی قیمتوں میں کمی
یہ تو ایک اچھی خبر ہے مگر ڈر ہے صرف خبر ہی نہ بن کر رہ جائے ۔ رمضان سے قبل ہی یوٹیلٹی سٹورز پر ایسا برا وقت آیا کہ پہلے اس میں موجود اشیاء ختم ہو گئیں جو لوگ وہاں خریداری کے لیے جاتے وہاں ان کا استقبال خالی الماریاں کرتی۔ بھولے بھٹکے سے کہیں کپڑے دھونے والا صابن یا برتن مانجھنے والا صابن دستیاب ہوتا تھا۔ اب رمضان میں تو ان کا کوئی خاص کام نہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء سارے رمضان میں یوٹیلٹی سٹورز سے روٹھی رہیں۔ اسکے بعد یوٹیلٹی سٹورز کی تعداد کم کرنے کے فیصلے نے رنگ جمایااور سپر سٹورز کے نام سے ایک نیا ڈرامہ رچانے کی تیاری شروع ہونے لگی۔ لوگ تو اب عام دکانداروں سستے بازاروں اور اتوار بازاروں میں لٹنے کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ انہیں یوٹیلٹی سٹورز کے نام پر چند سکے بچانے میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ اب جو حکومت نے یوٹیلٹی سٹورز پر گھی اور کھانے کے تیل کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا ہے۔ اس سے شاید ہی وہ روٹھے ہوئے صارفین کو منا پائے گی۔ یوٹیلٹی سٹورز پر جیسا گھی اور تیل دستیاب ہوتا ہے وہ صرف رمضان میں پکوڑے بنانے کے ہی کام آ سکتا ہے۔ ویسے حکومت بھی بڑی کائیاں ہے۔ کیا معلوم اس نے عید الاضحی کے موقع پر جان بوجھ کر یہ اعلان کیا ہو۔ کیونکہ اس موقع پر بھی مہینہ بھر باورچی خانوں میں طرح طرح کے پکوان بنانے کے لیے تیل اور گھی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے ممکن ہے یوٹیلٹی سٹورز سے ناراض صارفین کو واپس متوجہ کرنے کے لیے قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا گیا ہو۔
پاکستان نے افغان امن عمل سے بھارت کو نکال باہر کیا۔ بھارتی میڈیا
اسے ہم سو سنار دی تے اک لوہار دی کہہ سکتے ہیں۔ دھوکے باز جو چاہیں کر لیں مگر ایک نہ ایک د ن اسے ضرور بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی کے مصداق چھری تلے آنا ہی ہوتا ہے۔ بھارت نے نہایت چالاکی سے افغانستان میں اپنی سازشوں کا جال بچھایا ۔ یہ کام برسوں پہلے وہ شروع کر چکا تھا۔ ایک طرف وہ آزاد بلوچستان اور آزاد پختونستان کے نام نہاد خیالی پلائو پکا کر پاکستان کے گمراہ عناصر کو پالتا پوستا رہا۔ دوسری طرف اس نے افغانستان میں اپنے گماشتے بھی تیار کر لیے جنہوں نے وہاں کے عوام کو ہمیشہ پاکستان کے خلاف اکسایا۔ اس کے جواب میں پاکستان نے نہایت تحمل مزاجی سے اس کی ہر شرارت خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کی۔ یوں کچھوے اور خرگوش والی کہاوت سچ ثابت کر کے دکھائی۔ آج خود بھارتی میڈیا پاکستان کی افغان امن کوششوں کو سراہا رہا ہے اور ساتھ میں یہ بھی بتا رہا ہے کہ پاکستان نے کس طرح مہارت کے ساتھ اس پورے عمل سے بھارت کو یک بینی دو گوش باہر کر دیا۔ آج امریکہ، روس، چین ، نیٹو اور افغانستان پاکستان کے ساتھ مل کر افغانستان میں امن کے معاہد ے پر متفق ہو چکے ہیں۔افغان حکومت اور امریکہ سمیت سب پاکستان کی کوششوں کو سراہا رہے ہیں تو ظاہر بات ہے بھارت کو مرچیں ہی لگ رہی ہوں گی پتہ چل رہا ہو گا کہ ’’اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں‘‘ اب بھارت کے پاس سوائے صبر کے اور کوئی راستہ نہیں۔
٭٭٭٭
شدید زخمی ماں نے قاتلانہ حملے میں ملوث بیٹے کو معاف کر کے چھڑا لیا
ماں تو آخر ماں ہی ہوتی ہے۔ یہ مر بھی جائے تو کسی نہ کسی دعا کی‘ آیت کی یا محبت کی شکل میں بچوں کے آس پاس رہتی ہے۔ زندہ ہو تو سراپا سلامتی‘ مر جائے تو بھی سراپا رحمت بن کر اس کی شفقت اولاد کے سر پر سایہ فگن رہتی ہے۔ اسی لیے خدا نے بھی بندوں سے محبت کے اظہار کے لیے ماں کا ہی استعارہ لیا ہے۔ روایت ہے کہ خدا اپنے بندوں سے 70 مائوں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے۔ دنیا میں جنت کی تلاش میں مارے مارے پھر نے والوں کو کیا کبھی گھر میں موجود اپنی اس جنت کا بھی خیال آتا ہے۔ جس کو وہ فراموش کئے ہوتے ہیں۔ قدیم قصوں کہانیوں میں پڑھا تھا۔ ایک نوجوان کسی حسینہ پر مر مٹا اس نے اپنے وصل کے لیے شرط یہ رکھی کہ نوجوان اپنی ماں کا دل نکال کر اس کے حضور پیش کرے۔ اس بدبخت نے جا کر ماں سے اپنی مشکل بیان کی تو ماں نے ازخود اپنا سینہ آگے کرکے اسے دل نکالنے کی پیشکش کی۔ وہ بدبخت جب دل لے کر جا رہا تھا تو راستے میں ٹھوکر کھا کر گر پڑا تو ماں کے دل سے ہائے میرے بچے کو چوٹ تو نہیں لگی کی صدا آئی…قصہ مختصر بعد میں اس محبوبہ نے بھی اسے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ جو ماں کا نہیں ہوا میرا کیا ہو گا۔ اب شاہدرہ میں بھی ایک ایسے ہی بدبخت نوجوان نے پیسوں کے تنازعے پر کلہاڑی کے وار کر کے اپنی ماں کو شدید زخمی کر دیا۔ پولیس پکڑ کر لے جانے لگی تو اسی لہولہان جنت نے منت سماجت کر کے روک لیا اور معاف کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کسی کارروائی سے انکار کر دیا۔ اب بھی اگر کسی کو ماں کی ممتا پر شک ہے یا اس سے انکار ہے تو وہ جا کر اپنا ذہنی علاج کرائے۔ یاد رکھیں آسمان کی جنت میں داخلے کا راستہ ماں باپ کی اطاعت و خوشنودی سے ملتا ہے البتہ جہنم جانے کے خواہشمند ان کی نافرمانی کرکے ارجنٹ ٹکٹ کٹوا سکتے ہیں۔
٭٭٭٭