کیا سزا کے خلاف اپیلیں منظور ہوجائیں گی
بالاخر طویل ترین قانونی لڑائی کے بعد ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سنادیا گیا ۔اس میں تمام نامزد ملزمان کو سزائیں اورجرمانہ ہوئے۔ احتساب عدالت میں فیصلہ کے وقت نوازشریف مع بیٹی اپنی بیمار اہلیہ کی تیمارداری کیلئے لندن میں ایون فیلڈ محل میں مقیم تھے افواہیں گرد ش کررہی تھیں کہ انکی واپسی ناممکن ہے لیکن انہوں نے فیصلہ کیا اور 13 جولائی 2018 کو لاہور میں اتریں گے۔ پہلے پہل اسلام آباد ائر پورٹ انتخاب کیا پھر سیاسی وجوہ پر لاہور کو اپناگھر اور مسلم لیگ نون کا گڑھ سمجھتے ہوئے لاہور آنے کا فیصلہ ہوا ۔ انکے آنے سے پہلے مسلم لیگ کے قائد ین نے ملک بھر میں دھواں دھار مہم چلائی کہ عوام النا س ہجوم بے کراں بن کر لاہور ائر پورٹ کی طرف مارچ کریں اور لاکھوں افراد کو ایئرپورٹ پر جمع کرنے کا دعویٰ کیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ اگررکاوٹ ڈالی گئی تو مطلوبہ سے بھی زیادہ افراد آئیں گے اور ہم ہر رکاوٹ عبور کرکے اپنے قائد کا استقبال کریں گے اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں ایئرپورٹ پر جانے سے نہیں روک سکتی ۔ لیکن عجب تماشہ لگا۔ لوہاری سے جمعہ نماز کے بعد جلوس نکالاگیا اور شہباز شریف نے قیادت کی لیگی رہنما بھی ساتھ تھے نگران حکومت نے لاء اینڈ آرڈر کے نفاز کی آڑمیں کچھ مقامات پر کنٹینر ز بھی لگائے اوردوسرے شہروں سے آنے والے افراد کو رکاوٹوں کی بھی سامنا کرنا پڑا ۔ افسوسناک صورتحال یہ بنی کہ ایئرپورٹ پر لاکھوں کے اکٹھ کا منصوبہ دھر ا رہ گیا اور تیز رفتار کہلانے والا شہباز شریف کی قیادت میں جلوس ایئرپورٹ سے چھ کلومیٹر دور تک سمٹ کررہ گیا ۔ اس اثنا میں حکام نے نوازشریف وغیرہ کو گرفتار کرکے اسلام آباد پہنچا دیا یوں یہ احتجاجی افراد مال روڈ تک شورشرابہ کرتے ہوئے منتشر بھی ہوئے تیس سال ملک اور پنجاب پر حکومت اور اقتدار کے مزے لینے والے آٹھ گھنٹے بھی سڑکوں پر نہ رہ سکے۔
پاکستان میں پہلی دفعہ کسی وزیر اعظم کو احتساب عدالت سے سزا ہوئی ہے ۔ کیس کس طرح عدالت پہنچا اس میں طویل عرصہ لگا اور کئی موڑ آئے۔ 2016 سے پانامہ کا شور مچا ۔ پانا مہ لیکس کی وجہ سے دنیا کے کئی مقتدر افرادخفت کی گھاٹی میں گرے۔ پاکستان میں ایون فیلڈ جائیداد کی آواز اٹھی تو پہلے پہل انکاری ہوئے لیکن پھرنوازشریف نے بحیثیت وزیر اعظم ا سمبلی اور قوم سے خطاب کیا اور دعویٰ کیا کہ ا س جائیداد کے خرچہ کے تمام ذرائع اور ثبوت موجود ہیں اور یہی دعویٰ دہراتے رہے ۔ جب سپریم کورٹ میں معاملہ چلا تو کوئی کاغذ پیش کرنے سے قاصر رہے ایک قطری شہزاد ے کا خط پیش کیا گیا جو کہ قانون کے مطابق ردی کا ٹکڑا ثابت ہوا۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی پنچ نے فیصلہ سنایا تو دو نے نوازشریف کو نااہل اور تین نے مزید تحقیق کیلئے جے آئی ٹی بنانے کا کہا ۔ اس فیصلہ پر نون لیگ کی قیادت نے مٹھائی تقسیم کی اور خوشی منائی کہ بلاٹل گئی ۔ جے آئی ٹی نے تفتیش شروع کی تو شریف بلبلا اٹھا ۔ آجتک دنیا میں بھر میں کہیں بھی کسی تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش ہونے کے بعد ملزمان باہر میڈیا پر گفتگو کرتے اور تفتیش کرنے والوں پر گرجتے برستے نظر نہیں آئے ۔ امریکہ کے حالیہ الیکشن کے دوران وہاں کی ایجنسی ایف بی آئی نے صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن سے تفتیش کی کئی بار اسے بلایا گیا لیکن دنیا نے دیکھا کہ شور نہیں مچا یا گیا کہ اسے کیوں بلایا ۔ ہیلری تفتیش میں پیش ہوئی اور انتخابی مہم بھی چلائی ۔ جبکہ یہاں جے آئی ٹی کے باہر تماشہ لگا رہا ۔
جے آئی ٹی میں شاہانہ اندا ز سے ملزمان پیش ہوئے اور مضحکہ خیزی یہ بھی تھی کہ باہر آکر الٹا جے آئی ٹی پر سوالات شروع کردیئے ۔ بالآخرجے آئی ٹی نے رپورٹ پیش کردی اور پھر اس پر سپریم کورٹ کے ججوں نے متفقہ طورپر نوازشریف کو نااہل قراردیا اور اس کی وجہ دوران تفتیش دبئی کا اقامہ اور تنخواہ کا حصول قراردیا ۔ اور اسی فیصلہ میں احتساب عدالت کو چھ ماہ میں اس ریفرنس کا فیصلہ کرنے کا حکم صادر کیا گیا سرکاری ڈھول لچیوں نے خوب شورمچایا کہ کیس پانا مہ تھا اور سزا اقامہ پر ملی ۔ اسکا سادہ ساجواب ہے کہ ایک چور کو اگر کسی ایک مقدمہ میں پکڑا جاتا ہے تو دوران تفتیش مزید جرائم کا بھی مرتکب پاتا ہے تو اسطرح وہ تمام جرائم میں قابل مواخذہ گردانہ جاتا ہے ۔ یہی حال نوازشریف کے ساتھ ہوا ۔ جھوٹ بولنے اور اقامہ چھپانے پر نااہلی ہوئی اور ایون فیلڈ جائیداد کے ریفرنس کا فیصلہ عدالت کو کرنے کا کہا گیا ۔میرے خیال میں ملک کا وزیر اعظم غیر ملکی اقامہ رکھتا ہے تو یہ ملک کی بے عزتی اور عہد ہ کی توہین ہے اور یہ گھنائونا جرم ہے ۔ نو ماہ احتساب عدالت میں مقدمہ چلا ۔ نوازشریف کے وکلاء کروڑوں روپے لیکر صرف یہی کام کرتے رہے کہ کس طرح مقدمہ کی کارروائی طویل سے طویل تر کی جائے ۔
نوازشریف اپنی بیٹی کے ہمراہ اپنی اہلیہ کی تیمارداری کیلئے لندن میں تھے ۔ عدالت نے فیصلہ کی تاریخ مقر ر کی اور بلایا لیکن نہیں پہنچے ۔ عدالت نے فیصلہ سنادیا۔ فیصلہ سننے کے بعد طویل ترین مشاورتی اجلاس لندن اور پاکستان میںہوئے اور پھر اپیل کی دس دن کی مہلت ختم ہونے سے پہلے 13 جولائی کو لاہو ر کیلئے رخت سفر باندھا ابو ظہبی میں ٹرانزٹ میں آٹھ گھنٹے موجود رہے اور پھر لاہور کیلئے اڑان بھری۔
کسی کسی جگہ پر پولیس نے لاہور والے راستے پر رکاوٹیں ڈالیں ۔یوں انہیں اڈیالہ جیل پہنچادیاگیا۔
جب نون لیگ کی حکومت تھی تو مخالفین پر وحشیانہ لاٹھی چارج حتیٰ کہ براہ راست گولیاں چلانے سے بھی دریغ نہ کیا گیا اسطرح اپنے مخالفین کو ریاستی جبر سے دبانے میں کامیاب رہے اگر کل انکی مخالف حکومت ہوگی اور ان جیسے انداز اپنائے گی تو شاید یہ اپنے محلات سے باہر قدم نہ رکھ سکیں ۔اب اقتدار کا طنطنہ ختم ہوا حکم و دھمکیوں کی بجائے اب نالہ و فریاد کا موسم شروع ہوا چاہتا ہے مذید براں حسن نواز و حسین نواز کے علاوہ اسحاق ڈار کیلئے بھی ماحول گھمبیر نظر آتا ہے انہیں بھی اپنی عوام میں آنا چاہئے ۔صرف ٹوئیٹ سے کام نہیں چلے گا۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا سزا کے خلاف میاں نوازشریف ، مریم نوازشریف اور صفدر کی اپیلیں منظور ہو جائیں گی۔