’’ کیسے سمجھائوں … بڑے نا سمجھ ہو …؟؟‘‘
پچیس جولائی کو ہم بھی جوش و خروش سے ووٹ ڈالنے جائیں گے … یہ پہلا الیکشن ہے کہ ہم الیکشن سے دس دن پہلے تک یہ طے نہیں کر پا سکے کہ ہمارے نہایت قیمتی ووٹ پر کس کا حق ہے … ویسے محترم شاہد جاوید کا فرمان ہے کہ پہلا حق تو ’’بہر حال‘‘ بیگم کا ہی ہے لیکن وہ تو خود ووٹر ہیں … اور ہماری طرح وہ بھی مخمصے کا شکار ہیں … ویسے تو اس بار پوری قوم ہی مخمصے کا شکار ہے اور ابھی تک وہ روایتی گہما گہمی دیکھنے کو نہیں ملی جو الیکشن سے دس بارہ دن پہلے پچھلے الیکشن میں دیکھی جاتی تھی اوپر سے تین چار دنوں میں تین چار بڑے بم دھماکے ہونے کے بعد سرگرمیاں ماند پڑچکی ہیں اور سیاستدان اپنی جان کو ووٹ سے زیادہ قیمتی سمجھتے ہیں …
ہر الیکشن سے پہلے لوگ اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات چھپواتے ہیں اور خاص طور پر اپنی ذات برادری کا حوالہ نمایاں انداز میں دیتے ہیں … عباسی کوشش کرتے ہیں عباسی برادری کے کسی نمائندہ کو ہی ووٹ دیں اسی طرح لاہور میں آرائیں برادری، مغل برادری، کھوکھر برداری اور کشمیری برادری آج بھی اس کوشش میں مصروف ہے کہ برادری ازم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس بار بھی عوام کو ’’جُل‘‘ دینے میں کامیاب ہو جائیں …
استاد کمر کمانی فرماتے ہیں کہ مرزا غالب نے کہیں مرزاؔ، کہیں غالبؔ اور کہیں اسدؔ بطورِ تخلص اپنی شاعری میں استعمال کیا آج کے شعراء کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی شاعری میں تخلص کے طور پر اپنی ذات برادری کا استعمال کریں تا کہ شاعری میں مزید نکھار پیدا ہو جائے …
اگر بہادر شاہ ظفر …؎
کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
اگر بہادر شاہ ظفر ذات برادری کا پاس کرتے تو وہ ظفر تخلص کی بجائے مغل تخلص فرماتے تا کہ مغل برادری کی نمائندگی ہوجاتی اور شان میں اضافہ بھی … اور یہ شعر کچھ اس طرح پڑھا جاتا …؎
کتنا ہے بد نصیب مغل دفن کے لیے
مغلوں کے قبرستان میں دفن نہ ہوا
آج اخبار میں بہت بڑا سیاسی اشتہار دیکھتے ہوئے ایکدم سے پیر اعجاز شاہ بطورِ MNA امیدوار ننکانہ صاحب سامنے آ گئے موصوف طویل عرصہ تک سرکاری ملازمت میں رہے … پھر سرکاری ملازم ہوئے اور ایک بار پھر مشرف دور میں سرکاری ملازم کہلائے … کلین شو ہیں (شاہد جاوید نے کلین کو ’’قالین‘‘ لکھ دیا تھا وہ تو میری نظر پڑ گئی ورنہ کیا سے کیا ہو جاتا) … لیکن اپنے نام کے ساتھ پیر لکھتے ہیں میں سوچ رہا تھا کہ اگر پیروں کی کوئی انجمن ہوتی تو وہ ایسے پیروں کے خلاف ضرور احتجاج کرتے یا کم از کم ایک قرار داد ضرور منظور کرتے کہ ایسے کلین شیو حضرات اپنے نام کے شروع میں ’’پیر‘‘ نہ لکھیں اگر وہ ضروری سمجھتے ہیں تو نام کے بعد ’’پیر‘‘ لکھ لیں اور اُس کے لیے پیروں کی انجمن سے باقاعدہ ’’پیر‘‘ کہلانے یا لکھوانے کا اجازت نامہ ضرور حاصل کرتے … شاہد جاوید صاحب کسی وجہ سے غصے میں تھے اور وہ اپنا غصہ آج ہر حال میں مدثر عنائت بھٹی آف ’’حویلی جنات‘‘ جن کے بارے میں مشہور ہے کہ گرمیوں کی کھڑکتی دھوپ میں بھٹی صاحب ’’بوھڑ‘‘ کے درخت پر دوپہر کے وقت جنات کے ساتھ لڈو اور تاش کھیلتے ہیں …بھٹی کے بارے میں شاہد جاوید کو اُڑتی اُڑتی خبر ملی ہے کہ وہ بھی عنقریب ’’حویلی جنات‘‘ میں اپنے ’’پیر‘‘ہونے کا دعویٰ کرنے والے ہیں… اللہ خیر کرئے …؟! ’’جن‘‘ کی ’’جنات‘‘ کے ساتھ دوستی ہو اُن کو تو ایسا کچھ کر جانے کا بہر حال حق حاصل ہے …
ہمارے علاقے شاد باغ میں پیر محمد اشرف دورِ ضیاء الحق میں مجلس شوریٰ کے رکن تھے پھر وہ MNA کا الیکشن لڑنے کے لیے میدان میں آ گئے تو ہماری بھی اُن سے ہو گئی ہم نے اپنی عادت سے مجبور ایک دن پیر محمد اشرف کو نہایت خاموشی سے، بڑی راز داری سے پوچھا کہ ’’جناب آپ اپنے نام کے ساتھ ’’پیر‘‘ کیوں لکھتے ہیں آپ نے کوئی ’’پیر‘‘ ہونے کا کورس کر رکھا ہے یا خاندانی ’’پیر‘‘ ہیں یا دوست احباب آپ کو محبت سے یا شرارت سے ’’پیر‘‘ کہتے ہیں اور آپ مروت میں ’’پیر‘‘ کہلاتے چلے جاتے ہیں کیونکہ آپ تو مصری شاہ میں لوہے کا کاروبار کرتے ہیں کہاں یہ لوہے کا کاروبار اور کہاں ’’پیری مریدی‘‘ …
موصوف کی ہنسی نکل گئی اور راز داری سے بولے کہ ’’مظفر محسن تم تو حافظ لکھ سکتے ہو … کیونکہ اہل محلہ مدتوں سے دیکھ رہے ہیں کہ تمہارا حافظوں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا ہے جبکہ میں اطلاعاً عرض کر دوں کہ میں ’’پیر‘‘ والے دن پیدا ہوا تھا اُس دن کی مناسبت سے اپنے نام کے ساتھ ’’پیر‘‘ لگاتا ہوں ویسے میں تجربے کے زورپر اب تو تم بھی مانو گے کہ ’’پیر‘‘ لکھنے کا مجاز ہوں نہ یقین آئے تو حضرت پیر ضیاء الحق سے کہیں ملاقات ہو تو پوچھ لینا …
رہی بات پیر اعجاز شاہ کی … پیر پرویز مشرف تو آجکل ’’کسی نجی‘‘ کام سے ملک سے باہر ہیں ورنہ میں جسارت کرتا یا ابھرتی ہوئی صحافی محترمہ ملیحہ سید یا محترمہ مقدس فاروق اعوان سے کہتا کہ کسی انٹرویو کے دوران وہ پیر پرویز مشرف سے پوچھیں کہ پیر اعجاز شاہ کو یہ ڈگری کہیں آپ نے تو جاری نہیں کی …
ہمارے ہاں استاد کمر کمانی کے ساتھ اُن کے دوست پیر حاجی محمد تشریف لایا کرتے تھے میں اُن کا احترام ایک تو پیر ہونے کی حیثیت سے دوسرا حاجی ہونے کی وجہ سے کہیں زیادہ کیا کرتا تھا اور استاد کمر کمانی کی موجودگی میں پیر حاجی محمد کو پلکوں پر بیٹھاتا اور استاد کمر کمانی کو ’’لفٹ‘‘ تک نہ کراتا … ایک دن نہایت غصے میں آئے اور آتے ہی پیش کی گئی چائے کا کپ ہاتھ سے غصے میں پرے کر دیا اور بولے کہ ’’اُٹھا لے اپنی چائے … جہاں ’’چاہ‘‘ نہ ہو وہاں ’’چائے‘‘ کیسی …
میں نے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا اور ادب سے پوچھا ’’حضور اس نا چیز سے کیا گستاخی ہو گئی جو اس قدر ’’تپ‘‘ رہے ہو ’’چِل‘‘ کرو اور گنہگار کو معافی دو اور اس شدید ناراضگی کی وجہ بتائو‘‘ …؟؟؟!!!
غصے میں بولے ’’یہ جو میرے ساتھ آتے ہیں یہ نہ ’’پیر‘‘ ہیں نہ’’حاجی‘‘ … لیکن تم ان کا احترام مجھ سے کہیں زیادہ محبت اور عقیدت سے کرتے ہو میں غصے میں نہ آئوں تو اور کیا کروں …؟
پھر خود ہی وضاحت کی کہ ’’میرا یہ دوست عین حج والے دن پیدا ہوا تھا اس لیے اس کے نام کے ساتھ ’’حاجی‘‘ لگا دیا گیا … جبکہ یہ محلے میں ہمارے ایک ’’محلہ لیول‘‘ کے ’’پیر‘‘ صاحب تھے یہ اُن کے ساتھ دن بھر گھومتا تھا اس لیے دوست نے اسے بھی ’’پیر‘‘ کہنا شروع کر دیا … ؟!
’’استاد کمر کمانی … ہم تو ایک بار جس کو ’’پیر‘‘ کہہ لیں اُس کو ’’پیر‘‘ مانتے ہیں چاہے وہ پیر والے دن پیدا ہوا ہو یا حاجی محمد صاحب نے حج کیا ہے کہ نہیں … ہم تو ساری زندگی اُن کا احترام کریں گے … جیسے لاہور کے شہری نواز شریف اڈیالہ جیل میں ہو یا لاہور کی کیمپ جیل میں … اپنی نجی محفلوں میں کہتے ہیں کہ ’’ووٹ تو نواز شریف کو ہی دیں گے‘‘ …
اس وقت عمران خان نیازی پریشان ہے کہ لاہور کے شہریوں کو کیسے سمجھائوں کہ اُس نے ان سیاسی لوگوں کو ’’گدھا‘‘ تک کہہ ڈالا … مگر لاہور کے باسی ’’بلا‘‘ اُٹھانے کو تیار نہیں … ؟!؎
’’کیسے سمجھائوں … بڑے ناسمجھ ہو‘‘ …؟!