مریم نواز کا انداز سیاست
ضیاء دور میں پہلی بار میاں نواز شریف منتخب ہوئے‘ صوبائی وزیر بنے پھر وزارت اعلیٰ اس کے بعد نواز شریف کو تین بار وزیراعظم بنایا قوم نے ان کو شہرت کی بلندیوں پر لاکھڑا کیا۔ 1999ء میں پرویز مشرف سے نہ بنی تو مارشل لاء لگ گیا۔ نواز شریف کو سزا ہو گئی پھر وہ جدہ بھیج دیئے گئے۔ واپس آ کر وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے مگر کچھ ایسے حالات تبدیل ہوئے کہ پانامہ کیس کا غلغلہ ہوا۔ تحریک انصاف کے عمران خان نے معاملے کو خوب ہوا دی آخر کار میاں نواز شریف کو پانامہ کیس میں سزا ہو گئی انہیں 10 سال‘ بیٹی کو 7 سال اور داماد کو ایک سال کی سزا ہوئی تو میاں صاحب لندن اپنی بیمار بیوی کی تیمارداری کے لئے گئے تھے‘ سزا کے بعد لوگوں نے کہا نواز شریف واپس نہیں آئیں گے وہ واپس آئے اور انہوں نے اپنے بھائی شہباز شریف کی ڈیوٹی لگائی کہ عوام کے ساتھ ائرپورٹ پرآئیں تاکہ والہانہ استقبال کیا جائے اور بتایا جائے کہ نواز شریف آج بھی مقبول لیڈر ہیں ۔ عوامی کال دی گئی 13 جولائی کو عوام سڑکوں پر آ گئے مگر ان کے بھائی سابق وزیراعلی ائرپورٹ تک نہ پہنچ سکے۔ لیگیوں نے انتظامیہ پر الزامات لگائے کہ رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور ہمیں جانے نہ دیا گیا۔ کیا انتظامیہ ان کی سہولت کار بنتی ایسا نہیں ہو سکتا تھا؟ انہیں روکا ہی جانا تھا آگے ان کا کام تھا کہ یہ ہمت دکھاتے اور عوام کا یہ سیلاب لیکر استقبال کے لئے ائرپورٹ پہنچتے مگر وہ ایسا نہ کر سکے جس کے اثرات نہ صرف ان کی لیڈر شپ پر بلکہ مستقبل کی سایست پر بھی مرتب ہوں گے۔ یوں 13 جولائی رات تقریباً ساڑھے 9 بجے نواز شریف کو حراست میں لیکر اڈیالہ پہچا دیا گیا ۔ اس وقت ان کی صاحبزادی مریم نواز نے جس بہادری سے خود کو والد کے ساتھ جوڑے رکھا اس کی مثال شاید ہی ہماری سیاسی تاریخ میں مل سکے۔ نواز شریف جیل میں ہیں‘ بیٹی اور داماد بھی اسیر ہیں۔ شہباز شریف پھر بھی شاید وہ کچھ حاصل نہ کر پائیں جس کی وہ توقع رکھتے ہیں۔ اس سارے عمل میں مریم نواز کا دلیرانہ کردار قابل ذکر رہے گا ہر حکمران کے ڈوبتے ہوئے سورج اور شہرت اور اقتدار کھو دینے کے آخری لمحات بڑے عجیب و غریب ہوتے ہیں‘ بے بسی دیدنی ہوتی ہے‘ ان کے جاہ و جلال کے جلوے ختم ہو چکے ہوتے ہیں‘ مایوسی نے ان کو گھیر رکھا ہوتا ہے۔ 13 جولائی 2018 کی رات بھی میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی پر اسی طرح ایک بھاری رات تھی مگر نواز شریف نے ملک واپس آ کر گرفتاری دیکر اپنے نام کو بلند کر لیا۔ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ ان کا یہ فیصلہ سیاسی زندگی پر کیا اثرات ڈالے گا۔ نواز شریف کا سابقہ ریکارڈ بتاتا ہے کہ قسمت نے ہمیشہ ان کی مدد کی ہے اب حالات ہی بتائیں گے کہ وہ ن لیگ کے مستقبل کو کس طرف لے جائے گی۔ میرے ذاتی خیال میں ووٹ بینک نواز شریف کا ہے لوگ نواز شریف کو چاہتے ہیں اور کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا ہاں مریم نواز ان کی جگہ لے سکتی ہیں وہ اس لئے کہ وہ نواز شریف کا بیانیہ لیکر چل رہی ہیں۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ اقتدار کا کھیل بہت بے رحم ہوتا ہے باپ‘ بھائی یا اور کوئی رشتہ اگر حائل ہوتو رشتے‘ رشتے نہی رہتے۔ تاریخ گواہ ہے کئی بادشاہوں نے اپنے اقتدار کودوام دینے کے لئے اپنوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا؟