ہندو انتہا پسند بھارت میں موجود مساجدکے درپے
ہندو انتہا پسند تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے بھارتی مسلمانوں کو دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے اترپردیش کے شہر ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر تعمیر کرنے میں رکاوٹیں ڈالیں تو انہیں حج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اتر پردیش کے علاقے چکھری سے بی جے پی کے رکن اسمبلی برج بھوشن راجپوت کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو رام مندر کے معاملے پر ملک کے ایک ارب ہندوؤں کے جذبات کا احترام کرنا چاہیے اور اگر وہ ایسا نہیں کریںگے توہم بھی ان کے جذبات کا احترام نہیں کریںگے۔ راجپوت نے مسلمانوں کی اقلیتی حیثیت اور حج پرسبسڈی ختم کرنے کا مطالبہ کیاہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف ان کا نہیں بلکہ ایک ارب ہندووںکا بیان ہے۔
آج کل ہندو انتہا پسند بھارت میں موجود مسجدوں کے درپے ہیں۔ بھارت کی تاریخی مسجد ٹیلے والی کے سامنے لکشمن کی مورتی نصب کرنے کی تجویز پر تنازعہ ہوگیا۔ میونسپل کارپوریشن میں بی جے پی کے کارپوریٹر رام کشن یادو اور ان کے چیف وہیپ رجنیش گپتا نے مسجد کے سامنے مجسمہ نصب کرنے کی تجویز بلدیہ میں پیش کی تھی جسے منظور کرنے کے بعد تنازعہ پیدا ہوگیا۔ مسجد کے امام مولانا فضل المنان رحمان کا کہنا تھا کہ یہ علاقہ محفوظ ہے اور محکمہ آثار قدیمہ کی اجازت کے بغیر کسی قسم کی تعمیر یہاں پر نہیں ہو سکتی۔ مسجد میں جمعہ، عیدین اور دیگر نمازیں ادا کرنے کیلئے ہزاروں کی تعداد میں مسلمان آتے ہیں۔ اژدہام کے باعث بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر بھی نماز ادا کرتے ہیں۔ مجسمہ کے سامنے نماز نہیں پڑھی جا سکتی لہذا مجسمہ کیلئے کوئی دوسرا مقام منتخب کر لیں۔ مولانا کا کہنا ہے کہ پریورتن چوک پر پہلے سے ہی لکشمن کا مجسمہ نصب ہے۔ اس کے باوجود اگر دوسرا مجسمہ نصب کرنا ہی ہے تو جگہ تبدیل کر لی جائے۔ تاکہ لکھنؤ کے ادب و ثقافت، تہذیب و روایات پر آنچ نہ آئے۔
بابری مسجد کی شہادت کے واقعے کی تحقیقات کا وقت آیا تودوران تحقیقات یہ بات سامنے آئی کہ مسجد کی شہادت میں اس وقت کی حکومت کا بہت بڑا عمل دخل تھا۔ رپورٹ میں ایل کے ایڈوانی منوہر جوشی اورکاٹھیا کومسجد کی شہادت کے منصوبے میں براہ راست ملوث پایا گیا۔ رپورٹ کے مطابق مرلی منوہر جوشی اورایڈوانی نے اپنی نگرانی میں تمام انتظامات کو حتمی شکل دی اورمسجد کی شہادت کے وقت یہ دونوںلیڈر مسجد کے سامنے واقع ’’رام کتھا کنج‘‘ کی عمارت میں موجود تھے جوبابری مسجد سے صرف دوسومیٹر دورتھا اس رپورٹ نے جہاں ہندوئوں کے سکیولر ازم اورلبرل ازم پر سے پردہ اٹھایا وہاں بھارتی لیڈروں کا اصل چہرہ بھی دنیا کے سامنے عیاں ہوگیا ۔بابری مسجد کی شہادت کے الزام میں ایل کے ایڈوانی اعترافی بیان بھی دے چکے ہیں لیکن بھارتی ایوان انصاف کوان کے اندرموجود مجرم دکھائی نہیں دے رہا اس لیے وہ اب تک آزاد پھر رہے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل انتہا پسند ہندو جماعت بی جے پی نے دہلی کی تاریخی مساجد پر بھی اپنی میلی نظریں جما لی تھیں۔ نئی دہلی کی 300 سال پرانی اور تاریخی قدسیہ مسجد پر بی جے پی کے بااثر انتہا پسند ہندو رہنما وجے گوئیل نے عرصے سے میلی نظریں رکھی ہوئی ہے اور مسجد پر قبضہ کرنے اور اسے ہندو مندر کی جگہ قرار دینے کی سازش کر رہے ہیں۔ انہوں نے وقتاً فوقتاً مسجد کی طرف آنیوالے مختلف راستے بند کرانے کی کوشش کی ہے تاکہ نمازی مسجد میں نہ آ سکیں۔ نامعلوم افراد نے کشمیری گیٹ بس اڈے کی جانب کھلنے والے راستے کو دیوار تعمیر کرکے بند کر دیا جس سے نمازیوں کو دقت اٹھانا پڑی۔ مسجد کے خطیب اور امام نے بتایا کہ مسجد کی طرف جانے والا یہ گیٹ کافی عرصے سے کھلا ہوا تھا اور ان کی غیرموجودگی میں بند کیا گیا۔ رنگ روڈ کی جانب کھلنے والا راستہ بھی رکاوٹوں کی زد میں ہے۔ مسجد پر قبضے کی ناپاک کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن ہم ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہونے دینگے۔ مولانا نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ زیادہ سے زیادہ آکر مسجد قدسیہ میں نماز ادا کیا کریں تاکہ شرپسندوں کو احساس ہو کہ مسجد کا پرسان حال صرف امام نہیں نمازی بھی ہیں۔ قدسیہ مسجد کو مغل بادشاہ محمد شاہ کی تیسری اور لاڈلی بیوی قدسیہ بیگم نے 1748 ء میں شمالی دہلی کے علاقے میں دریائے جمنا کے کنارے قدسیہ باغ کے ساتھ تعمیر کرایا۔ بھارتی حکومت کی طرف سے مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث اس عظیم الشان مسجد کی حالت خاصی خستہ ہو چکی ہے۔
اسی طرح بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے برسر اقتدار آتے ہی ریاست اترپردیش کے شہر ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کا حکم دے دیا جس کے بعد مندر کے لئے تعمیراتی سامان ایودھیا پہنچا دیا گیا۔ انتہا پسند ہندو تنظیم وشوا ہندو پریشد کی جانب سے عندیہ دیا جا رہا ہے کہ مندر کی تعمیر کا کام بہت جلد شروع کر دیا جائے گا۔رام مندر کی تعمیر کیلئے 20 ٹن پتھر کارسیوک پورم میں پہنچا دیئے گئے۔ یہ پتھر دو ٹرکوں میں بھارت کی مغربی ریاست راجستھان سے لائے گئے۔
یہ صورتحال تمام ہندوستان کی مساجد کے ساتھ ہے کہ یا تو ان کو نذر آتش کیا جا رہا ہے یا مندروں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں ان کی تاریخی حیثیت اور نادار ہونے کا بھی احساس نہیں کیا جا رہا ۔
بھارتی شہروں کو آلودگی سے پاک کرنے کیلئے مودی سرکار نے ایک نیا اور نادر حکم جاری کیا ہے جس کے تحت دہلی میں مساجد کا جائزہ لیا جائے گا تاکہ اذان کے وقت ان سے بلند ہونے والے ’’شور‘‘ کا محفوظ حدود سے کم یا زیادہ ہونے کا فیصلہ کیا جائے اور اگر سرکاری حکام کو مسجدوں سے ’’اذان کا شور‘‘ زیادہ محسوس ہوا تو پھر دہلی کی مساجد سے لاؤڈ اسپیکر اتار لیے جائیں گے یا ان کی تعداد بہت کم کردی جائے گی۔اکھنڈ بھارت مورچہ ان لوگوں کی شکایات لے کر ماحولیاتی تحفظ کی عدالت میں پیش ہوئی تھی۔ماحولیاتی تفتیش کے دوران اگر کوئی مسجد زیادہ شور کی مرتکب پائی گئی تو بھارت میں 1986 کے ماحولیاتی قانون اور 2000 میں شور کی آلودگی اور اس پر کنٹرول سے متعلق منظور شدہ قوانین کی روشنی میں کارروائی کی جائے گی جس میں لاؤڈ اسپیکر ہٹانے سے لے کر مسجد انتظامیہ پر جرمانے اور دیگر سزائیں بھی شامل ہیں۔