مکرمی!موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اپنے پیشرو حکمرانوں کی اندھی تقلید میں عرب ملک شام میں اپنی مسلم دشمنی کی روایتی جارحانہ کارروائیوں سے وہاں کے مقامی لوگوں کے جان ومال اور امن وامان کو تباہ و برباد کرنے کے مسائل گزشتہ تقریباً آٹھ سال سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امریکہ تو اقوام متحدہ کے قیام کے بنیادی 51 ممالک میں سے ایک بڑا اور اہم رکن ہے۔ اس عالمی ادارے کے قیام کا بنیادی مقصد عالمی سطح پر قیام امن ہے لیکن امریکہ بہادر اقوام متحدہ کے مذکورہ بالا فریضہ اور ذمہ داری کی ادائیگی کی بجائے اپنی من مانی کی کارروائیوں کو ہی اکثر اوقات ترجیح دینے کی روش پر عملداری کا حامی اور خواہشمند بنا چلا آ رہا ہے۔ اس طرح امریکی حکمران مسلم ممالک کے مالی اور مادی وسائل اور مفادات پر جارحیت سے قابض ہونے کے علاوہ وہاں کے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لئے ہی اپنی طاقت اور پالیسیاں بروئے کار لانے کے اختیارات استعمال کرنے پر فخر و ناز محسوس کرتے ہیں حالانکہ یہ حرکات سراسر بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے منشور کی کھلی خلاف ورزی پر مبنی ہیں لیکن اس عالمی ادارے پر بھی امریکی قیادت کی وجہ سے عالمی قوانین کا منصفانہ استعمال بسا اوقات دیکھنے اور سننے میں نہیں آتا۔ قابل غور امر یہ ہے کہ شام میں اب تک لاکھوں افراد امریکی جارحیت سے موت کا ہدف بن کر اپنی قیمتی جان و مال سے محروم ہو چکے ہیں جبکہ دیگر لاکھوں شدید زخمی اور معذور ہونے کے ساتھ قریبی ممالک میں پناہ گزین ہونے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ان لاتعداد لوگوں کو بلاشبہ خوراک‘ صاف پانی‘ کپڑے‘ رہائش کی سہولتیں اور اپنی بنیادی ضرورت تعلیم جاری رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ صدر ٹرمپ بتائیں کہ انسانوں کو مذکورہ بالا ضروریات سے طاقت اور غنڈہ گردی سے محروم کرنا کس ملک اور معاشرے کے مہذب قوانین اور اصولوں کی پاسداری ہے؟ لہذا امریکی حکومت اپنی غلط کاریوں پر ندامت اور شرمساری کا اظہار کرے۔
(مقبول احمد قریشی ایڈووکیٹ)