نگران حکومت کے ڈیڑھ ماہ کے عرصہ میں پاکستانی روپیہ ٹکے ٹوکری اور مہنگائی کے نئے طوفان
انٹربینک مارکیٹ میں ٹریڈنگ کے آغاز پر ہی گزشتہ روز ڈالر کو پر لگ گئے اور کاروبار کے دوران ڈالر 128.26 روپے کا فروخت ہوا، سٹیٹ بنک کے مطابق انٹر بینک مارکیٹ میں کاروبار کے اختتام پر روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر ریکارڈ چھ روپے 45پیسے بڑھ گئی جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 128روپے 75پیسے میں فروخت ہوا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ موجودہ نگران حکومت نے گزشتہ ماہ بھی روپے کی قدر پانچ فیصد کم کی تھی۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر کی شرح میں اضافہ سے ملک میں مہنگائی کانیا طوفان آئے گا۔ نگران حکومت کے دور میں اب تک روپے کی ہونے والی بے قدری کے باعث ملک پر بیرونی قرضوں میں نیا قرض لئے بغیر ہی آٹھ کھرب روپے سے زیادہ کا اضافہ ہو چکا ہے۔ بلوم برگ کے مطابق مسلسل بے قدری کے باعث پاکستانی کرنسی ایشیاءکی کمزور ترین کرنسی بن گئی ہے۔ سٹیٹ بنک کے مطابق ڈالر مہنگا ہونے سے گزشتہ صرف ایک دن میںحکومت کے بیرونی قرضوں میں آٹھ سو ارب روپے کا اضافہ ہوا جو اس وقت بڑھ کر آٹھ ہزار 120ارب روپے ہو چکے ہیں۔ مئی کے اختتام پر حکومت کا بیرونی قرضہ سات ہزار 324ارب روپے تھا۔ اس طرح ملک کے بیرونی قرضوں میں کوئی نیا قرضہ لئے بغیر ہی 15اعشاریہ61فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔
معاشی ماہرین کے بقول زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی اور ادائیگیوں کی وجہ سے پاکستانی روپے کی قدر میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اسی طرح پاکستان سٹاک ایکسچینج میں ایک بار پھر مندی کے بادل چھا گئے ہیں اور مارکیٹ سرمایہ میں ایک کھرب 25ارب 57کروڑ97لاکھ 20ہزار 596روپے کی کمی ہوئی ہے۔ ایف بی آر کی چیئرپرسن رخسانہ یاسمین کے بقول کالا دھن سفید کرنے والی ٹیکس ایمنسٹی سکیم بھی ناکام ہو گئی ہے۔ انہوں نے گزشتہ روز اعتراف کیا کہ یہ سکیم اچھی تھی مگر اسے اچھا رسپانس نہیں ملا۔ انہوں نے اسی بنیاد پر ایمنسٹی سکیم کی مدت میں مزید توسیع نہ کرنے کا اعلان کیا۔ دوسری جانب سٹیٹ بنک کی جانب سے درآمد ہونے والی131اشیاءپر سو فیصد کیش مارجن عائد کر دیا گیا ہے، جس کے باعث موٹرسائیکل، ٹائر، سم کارڈ، ڈیٹا پراسیسنگ معلومات، پان، تمباکو، الائچی اور دیگر اشیاءمہنگی ہو جائیں گی۔ سٹیٹ بنک کی مانیٹری پالیسی کے مطابق ملک کے جاری کھاتے میں بڑھتے ہوئے خسارے کے باعث ایک قلیل مدت کے آگے پائیداری نظر نہیں آ رہی۔ دوسری جانب آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قیمت میں حالیہ اضافہ سے ملک میں پانی کی قلت ختم کرنے کیلئے بنائے جانے والے ڈیمز کی تعمیری لاگت میں بھی تقریباً پانچ فیصد اضافہ ہو گیا ہے، اسی طرح اقتصادی ماہرین نے کھانے پینے کی اشیاء سے لے کر روز مرہ استعمال کیلئے درآمد کی جانے والی ہر چیز کے نرخوں کو آگ لگنے کا عندیہ دیا ہے جس سے ملک کے ہر شہری کا بجٹ بری طرح متاثر ہوگا، جبکہ گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیاں گاڑیوں کے نرخوں میں دو لاکھ روپے تک کا اضافہ کر دیں گی۔
عبوری نگران حکومتوں کا قیام درحقیقت ملک میں عام انتخابات کے پرامن اور شفاف انعقاد کیلئے الیکشن کمشن کی معاونت کرنے اور منتخب حکومتوں کی تشکیل تک روز مرہ کے معاملات نمٹانے کیلئے عمل میں لایا جاتا ہے مگر موجودہ اسمبلیوں کی آئینی مدت پوری ہونے کے باعث ان کی تحلیل کے بعد ملک میں وفاقی اور صوبائی سطح پر جو عبوری نگران سیٹ اپ تشکیل دیا گیا اس نے گیس، پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے اور ٹیکسوں شرح میں اضافے سے نئے ٹیکس عائد کرنے تک ایسے اقدامات اٹھانا شروع کر دیئے جو آئین کے تحت قائم مستقل آئینی حکومت کے پالیسی معاملات کا حصہ ہوتے ہیں۔ نگران حکمرانوں کی جانب سے اٹھائے گئے متعدد اقدامات کے باعث نہ صرف ان کے ماتحت منعقد ہونے والے انتخابات کی شفافیت کے بارے میں سوال اٹھنے لگے ہیں بلکہ ان کے اقتصادی معاملات پر اٹھائے گئے اقدامات سے آنے والے حکمرانوں کیلئے بے پناہ مشکلات پیدا ہوتی بھی نظر آ رہی ہیں۔ موجودہ، نگران سیٹ اپ کے تقریباً سوا ماہ کے عرصہ کے دوران روپے کی قدر میں جس تیزی رفتاری کے ساتھ کمی اور ڈالر کی شرح میں شتر بے مہار اضافہ ہوا ہے اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ نگران حکومت کو ملک کی معیشت و اقتصادیات اور عوام کی حالت زار سے کوئی سروکار نہیں ہے اور وہ اپنی پونے دو ماہ کی حکمرانی میںملک کو اقتصادی بدحالی، کساد بازاری اور قومی معیشت کی مکمل تباہی کا اہتمام کرکے جانا چاہتی ہے تاکہ آنے والے حکمران قومی معیشت کو سنبھالنے کی کوششوں میں ہی مصروف رہیں اور عوام مہنگائی کی دہائی دیتے ان کے گلے پڑتے نظر آئیں۔ اس تناظر میں نگران حکمرانوں کا ایجنڈہ ملک کو افراتفری کا شکار کرنے اور سیاسی و اقتصادی عدم استحکام سے دوچار کرنے والا ہی نظر آتا ہے جبکہ یہی ایجنڈہ ہمارے مکار دشمن بھارت کا ہے جو پاکستان کے سیاسی عدم استحکام اور افراتفری کے ماحول سے فائدہ اٹھا کر اس ارض وطن کو کمزور کرنے کی سازشوں میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے۔ اگر سابق منتخب حکومت کے پانچ سالہ دور کا موجودہ نگران حکمرانوں کے محض ڈیڑھ ماہ کے دور کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا جائے تو لانگ مارچ، دھرنوں اور دوسری حکومت مخالف تحریکوں سے زچ کی گئی مسلم لیگ (ن) کی حکومت آج عوام کیلئے نعمت غیرمترقبہ نظر آتی ہے جس کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے نہ صرف ڈالر کی قیمت سو روپے سے تجاوز نہ کرنے دی بلکہ ٹیکسوں کی وصولی کا نظام بھی مربوط کیا اور قومی معیشت کو دھرنوں اور لاک ڈاﺅن جیسے اقدامات سے پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصانات کے باوجود نہ صرف سنبھالے رکھا بلکہ استحکام کی منزل سے ہمکنار کرنے میں بھی کامیاب ہوتے نظر آتے رہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تحت میاں نوازشریف کی اسمبلی کی رکنیت، وزارت عظمیٰ اور پارٹی صدارت سے نااہلیت کے باعث قومی معیشت کو یقیناً سخت دھچکے لگے اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ڈالر کی شرح میں کبھی شتر بے مہار اضافہ نہیں ہونے دیا چنانچہ منتخب اسمبلیوں کی آئینی مدت مکمل ہونے تک ڈالر کی قیمت 104سے 105روپے تک تھی جبکہ اس حکومت نے جاتے جاتے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ بھی روک لیا تھا مگر نگران حکمرانوں نے تو اقتدار میں آتے ہی اپنے مختلف اقدامات سے مہنگائی کو عملاً آگ لگا دی جن کے اقتدار کے مختصر سے عرصہ کے دوران اب تک پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بھی دو بار اور عوام کیلئے ناقابل برداشت اضافہ کیا جا چکا ہے اور روپے کو لات مار کر اس کے مقابل ڈالر کی شرح میں بھی پاکستان کی تاریخ کا بلند ترین 23روپے تک کا اضافہ کیا جا چکا ہے۔ ملک اور عوام کی یہ درگت عبوری نگران دور کی وزیر خزانہ شمشاد اختر کے ہاتھوں بن رہی ہے جو سابق گورنر سٹیٹ بنک ہونے کے ناطے ماہرین اقتصادیات میں شمار ہوتی تھیں۔ اسی طرح انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کے آخری مراحل میں عوام کیلئے کالا دھن سفید کرانے کی خاطر لاگو کی گئی ٹیکس ایمنسٹی سکیم کو ناکام بنانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی کیونکہ نگران حکمرانوں کی پیدا کی جانے والی غیر یقینی کی فضا میں حکومتی اعلانات و اقدامات پر اعتبار قائم نہ ہونے کے باعث کوئی شخص اپنا کالا دھن ظاہر کرنے کا رسک لینے پر آمادہ نہیں۔
عام آدمی تو پہلے ہی مہنگائی کے عفریت کے آگے پڑا جان کنی کی حالت کو پہنچ چکا تھا اور کوئی بعید نہیں کہ نگران حکمران جاتے جاتے بھی عوام کو پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کا ٹیکہ لگا جائیں جبکہ نگرانوں کے دور میں ہونے والی روپے کی بے قدری نے تو عوام کو زندہ درگور کرنے اور اقوام عالم میں اس ملک خدا داد کو بے وقعت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آج جہاںیہ ملک ایشیاءمیں اپنی کمزور ترین کرنسی والا ملک بن گیا ہے وہیں اس کے جاری اور نئے وضع ہونے والے ترقیاتی منصوبوں کی لاگت میں بھی بے پناہ اضافہ ہونے سے عوام کو بھی اضافی اور نئے ٹیکسوں کی شکل میں مہنگائی کے پہاڑوں کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ ڈالر کی شرح 23روپے تک بڑھنے سے غیر ملکی قرضوں کے حجم میں جس تیز رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے اس کے تناظر میں اب ملک کا ہر آنے والا بچہ کم از کم دو لاکھ روپے کا مقروض بن کر پیدا ہوگا۔
اگر نگرانوں کے دور میں آزادانہ، منصفانہ، شفاف اور پرامن انتخابات کے انعقاد کا تقاضا بھی پورا نہیں ہو رہا، قومی معیشت تباہی کے دہانے کی جانب دھکیلی جاتی نظر آ رہی ہے اور عوام کو بھی مہنگائی کے پہاڑ لاد کر عملاً زندہ درگور کیا جا رہا ہے تو عوام ان سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ آخر وہ کیا ایجنڈہ لے کر اقتدار میں آئے ہیں۔ انہیں اپنے اقدامات و اعمال پر بہر صورت جوابدہ ہونا ہے جس پر انہیں لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں اس لئے انہیں اپنے ممکنہ احتساب کی ابھی سے تیاری کر لینی چاہئے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024