بدھ‘ 4ذیقعد 1439 ھ ‘ 18 جولائی 2018ء
جہانگیرہ میں سٹیج گرنے سے پرویز خٹکزخمی، کمر میں چوٹ آئی
پرویز خٹک صاحب آج ویسے ہی بڑے سرگرم ہیں۔ ان کے نازک کاندھوں پر بہت بوجھ پڑا ہوا ہے۔ اُوپر سے گزشتہ کچھ دنوں سے وہ خاصے جذباتی بھی ہو رہے ہیں۔ کئی عوامی جلسوں میں انہوں نے جس طرح مخالفین کو گالیوں سے نوازا اس سے لگتا ہے ان کے کاندھوں پر ان گالیوں کا بوجھ بھی پڑا ہو گا جس کی وجہ سے جہانگیرہ میں سٹیج ٹوٹنے کا یہ واقعہ پیش آیا۔ سٹیج بے چارہ گالیوں اور خٹک صاحب کا بوجھ سہہ نہیں سکا اور دھڑام سے نیچے گر گیا جس سے اطلاعات کے مطابق خٹک صاحب کی نازک کمر میں چوٹ لگی ہے اور ڈاکٹروں نے انہیں کچھ روز مکمل آرام کا مشورہ دیا ہے۔ اس حادثے نے گزشتہ الیکشن میں عمران خان کے سٹیج سے گرنے کی یاد دلا دی ہے جس میں خان صاحب شدید زخمی ہوئے تھے۔ اب فرق صرف یہ ہے کہ خان صاحب اُوپر سے گرے تھے جبکہ پرویز خٹک صاحب سٹیج سمیت گرے ہیں۔ اب معلوم نہیں سٹیج پر براجمان باقی رہنما صحیح سلامت ہیں یا وہ بھی اپنی چوٹوں کو سہلا رہے ہیں۔ اس حادثے کے بعد پرویز خٹک صاحب کو چاہئے کہ وہ اپنی زبان پر قابو رکھنے کی بھی پریکٹس کریں کیونکہ جو زبان انہوں نے استعمال کی ہے وہ شاید ہی کبھی کسی سیاسی رہنما نے استعمال کی ہو اور کسی کی بات نہیں کرتے خود ان کے قائد عمران خان نے بھی شاید ہی کبھی ایسی زبان استعمال کی ہو....
٭........٭........٭
کچے کے علاقے میں پنجاب پولیس کا پھر ایکشن 11 مغوی برآمد
جتنے آپریشن پنجاب پولیس نے کچے کے علاقے میں کئے ہیں اگر اتنے آپریشن کسی پکے ادارے نے کئے ہوتے تو اس کے مثبت اثرات ہمارے سامنے آ چکے ہوتے۔ ہر بار پولیس کی طرف سے کچے کے علاقے کو مجرموں اور ڈاکوﺅں کی پناہ گاہوں اور چھوٹو، موٹو ، لمبو گینگوں سے پاک کرنے کے بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات برآمد ہوتا ہے۔ ہر بار اعلان کیا جاتا ہے کہ درجنوں جرائم پیشہ افرادپکڑے گئے اسلحہ برآمد ہوا۔ مگر عملاً کچھ عرصہ بعد پھر یہ علاقہ جرائم پیشہ افراد کا گڑھ بن جاتا ہے۔ جنوبی پنجاب کے عوام ان ڈاکوﺅں رسہ گیروں اور اغوا برائے تاوان کے ملزموں کے ہاتھوں تنگ آ چکے ہیں جنہوںنے ان کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ گزشتہ روز رحیم یار خان میں پیپلز پارٹی کی رہنما نے زچ ہو کر ایک جلسے میںڈاکوﺅں، چوروں اور رسہ گیروں کے ہاتھوں ستائے دیہاتیوں سے کہا کہ وہ ہتھیار اٹھا کر ڈاکوﺅں کا مقابلہ کریں، کیونکہ پولیس ان کا قلع قمع کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ ایک سچی بات تو یہ بھی ہے کہ ہمارے اکثر بڑے بڑے جاگیردار، مخدوم صاحبان اور سردار خود ان جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرتے ہیں تاکہ ان کا ٹہکا قائم رہے اور انہی کی مدد سے وہ مخالفین کو قابو بھی کرتے ہیں۔ اگر وہ بھی اپنی اداﺅں پر غور کریں ان مجرموں کی سرپرستی چھوڑ دیں تو پولیس بھی ان مجرموں کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ کر ان کا بآسانی قلع قمع کر سکتی ہے....
٭........٭........٭
مسلم لیگی سینیٹر نے نگرانوں کو بوڑھوں کی انجمن قرار دیدیا
اب معلوم نہیں یہ الزام ان کی عمروں کی وجہ سے انہیں دیا گیا ہے یا ان کی سست کارکردگی کی وجہ سے۔ عمروں کے معاملے میں کسی کو بوڑھا کہنا مناسب نہیں۔ بوڑھا وہ ہوتا ہے جس کا دل اُمنگوں سے خالی ہو۔ اگر دل اور دماغ جوان ہوں تو پھر وہی :
”دل ہونا چاہی دا جوان تے عمراں چہ کی رکھیا “
والی بات ہی درست لگتی ہے۔ اب ہمارے نگرانوں کی اکثریت اگرچہ عمر کے اس حصے میں ہے جنہیں عمر رسیدہ کہا جاتا ہے تو کوئی بات نہیں، ان کے دل اور جذبے تو جوان لگتے ہیں۔ تبھی تو انہوں نے یہ گراں بار ذمہ داریاں اُٹھا لی ہیں۔ ورنہ یہ لوگ انکار بھی کرسکتے تھے۔ اب مسلم لیگی سنیٹروں کو ان سے اختلاف ہو سکتا ہے کیونکہ ان بابوں نے اپنا احتسابی دست شفقت صرف مسلم لیگ والوں کے سر پر ہی رکھا ہے۔ جس کا بوجھ کافی ہے۔ مگر انہیں بابے کہہ کر ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی بات تو نہ کی جائے ۔سانحہ مستونگ سے سب کے دل چھلنی ہیں۔ اس حساب سے واقعی نگرانوں کی کارکردگی اور موقع پر پہنچنے میں تاخیر کی ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے اگر وہ جوانوں کی طرح بروقت سانحہ کی جگہ پر جاتے اور لواحقین کی دلجوئی کرتے، زخمیوں کو اپنی نگرانی میں ہسپتالوں تک منتقل کرنے کی کوشش کرتے تو بات بن جاتی مگر شاید وہاں بھی یہی بزرگی آڑے آئی ہو گی....
٭........٭........٭
کامیابی کے بعد لیاری میں پانی کا مسئلہ حل کریں گے: آصفہ
پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لئے کامیابی کی شرط کس لئے لگائی جا رہی ہے یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے۔ لیاری کیا پورے کراچی میں پانی کی قلت کا مسئلہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ بے نظیر دور سے لے کر نواز شریف کی برطرفی تک سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت رہی۔ گزشتہ دس برسوں سے تو متواتر پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ کیا یہ بات آصفہ زرداری صاحبہ نہیں جانتیں یا انہیں بتائی نہیں گئی۔ ان دس برسوں میں ان کی حکومت نے یہ مسئلہ حل کرنے کی رتی بھر کوشش بھی نہیں کی جس کا ثبوت لیاری میں بلاول زرداری کے جلوس کا خالی مٹکے اٹھا کر احتجاج ہے۔ اب آصفہ صاحبہ اپنے بھائی کی الیکشن مہم میں لیاری والوں کا ایک بار پھر دل جیتنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ حالانکہ یہ ان کا اپنا حلقہ ہے۔ جب یہاں پانی کی قلت کا مسئلہ حل نہیں ہوا تو کسی اور علاقے کی کیا بات کی جائے۔ محترمہ کہہ رہی ہیں کہ پینے کے پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لئے چاہے سمندر کو ہی میٹھا کیوں نہ کرنا پڑے وہ کریں گے ، سارے سمندر کو رہنے دیں اگر کراچی میں سمندری پانی کو میٹھا کرنے کے چند پلانٹ لگائے گئے ہوتے، واٹر مینجمنٹ کا کام درست طریقے سے کیا گیا ہوتا تو آج عوام کے سامنے ایسے دعوے نہ کرنے پڑتے۔ عوام سے وعدے کرنے کی بجائے اگر بلاول، آصفہ اور بختاور صاحبہ پیپلز پارٹی سندھ پر حکومت کرنے والے اپنے رہنماﺅں سے اس بارے میں جواب طلبی کریں۔ ان کی گوشمال کریں تو ز یادہ بہتر ہوگا اوراب یہ جو پیپلز پارٹی کی اشتہاری مہم میں سندھ میں پانی کے درجنوں پلانٹوں ، درجنوں نئے جدید ہسپتالوں اور پاور پلانٹوں کو دکھایا جا رہا ہے۔ خود سندھ کے عوام ان کے بارے میں پوچھ رہے ہیں کہ یہ سب ہیں کہاں....
٭........٭........٭