داعش کا موثر مقابلہ کرنے کی ضرورت
تین سال قبل میں پہلا شخص تھا جس نے ڈسکہ (ضلع سیالکوٹ ) کی ایک مسجد میں تقریب کے دوران ، پاکستان میں داعش کی موجودگی کا انکشاف کیا۔اور اس کے بعد جنوبی پنجاب، خیبر پختونخوا اور فاٹا میں بھی داعش کے وجود کی نشان دہی کی تب مسلم لیگ ن کی حکومت تھی۔ سرکاری طور پر میرے بیان کی تردید کی گئی اور دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان میں داعش کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ لیکن قوم نے بچشم خود ، اسلام آباد اور کراچی میں داعش کے بینرز لہراتے دیکھے۔ جب خالد خراسانی نے داعش پاکستان کا سربراہ ہونے کا دعویٰ کیا تھا تو حکومت کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں تھیں۔ لیکن اس نے سیاسی مصلحتوں کے غلبے کے تحت انکار پر اصرار جاری رکھا۔ خالد گلگت بلتستان کا رہنے والا اور تحریک طالبان پاکستان کا نیا ترجمان تھا خالد بلتی المعروف محمد خراسانی کے نام سے۔ تب اس کی عمر 30، 35سال کے لگ بھگ تھی اس نے کراچی کے بعض دینی مدارس سے تعلیم حاصل کی اسے عالم فاضل سمجھا جاتا ہے۔ جامعہ الرشید میں پڑھاتا بھی رہا ذرائع ابلاغ اور نشرو اشاعت بارے میں وسیع تجربہ رکھتا تھا ۔ تحریک طالبان پاکستان کی ”عمر میڈیا ٹیم“ کا رکن بھی رہا تھا۔ علاوہ ازیں کراچی کے کئی مختلف دینی مدارس میں پڑھاتا بھی رہا ۔ وہ ان دنوں تحریک طالبان پاکستان کے نئے سربراہ مفتی ولی اور اکرام اللہ کے ہمراہ افغانستان میں مقیم ہے یہ دوسرا خودکش بمبار تھا جو محترمہ بے نظیر کی لیاقت باغ میں شہادت کے دن بچ نکلا تھا ۔ یہ وہی خالد خراسانی ہے جو حکیم اللہ محسود کا دست راست ہے۔ پاکستان میں ان دنوں ہونے والی دہشت گردی میں داعش کے تربیت یافتہ فدائین استعمال کئے جاتے ہیں ان کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل در آمد کے فیصلے افغانستان میں ہو رہے ہیں کہا جاتا ہے کہ خالد خراسانی کا مستفر کنٹر افغانستان ہے ایک امریکی خاتون صحافی ، اکرام اللہ اور مولوی فضل اللہ کے ٹھکانوں کا سراغ لگانے کی کوشش میں شدید زخمی ہوگئی۔ اس خاتون نے گزشتہ دنوں اپنے پاکستانی اسسٹنٹ کو یہ تمام کہانی سنائی۔ عوام کے ذہنوں میں یہ ایک بہت بڑا سوال ہے کہ داعش ایک بار پھر کے پی کے اور بلوچستان میں کیوں فعال ہوگئی ہے۔ یہاں میں اپنا عاجزانہ تجزیہ پیش کرتا ہوں جس کی بنیاد ان شواہد پر ہے جو میرے ہاتھ لگے جس کا ذکر میں نے اپنی 23اگست 2017کی پریس کانفرنس میں کیا تھا۔ اس پریس کانفرنس میں میں نے انٹی پاکستان منصوبے کا انکشاف کیا تھا جس کا مقصد خیبر پختونخوا اور فاٹا میں ایک خصوصی ریڈیو سٹیشن جسے پاک انٹلی جنس نے بند کر دیا تھا کے ذریعے پاکستان دشمنی جذبات اور عوام کو جھوٹے پراپیگنڈے کے ذریعے ایک دوسرے سے لڑانا تھا ۔ ہم نے داعش کے افغانستان میں کئی تربیتی کیمپ دیکھے ہیں جہاں پاکستان دشمنی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی ہوتی ہے اس پاکستان دشمنی پلان کا انکشاف ایک بہت ہی مشہور امریکی تجزیہ نگار نے روسی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا بعد میں اس انٹرویو کو عالمی ذرائع ابلاغ نے بھی شائع اور نشر کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغرب نے پاکستان کو توڑنے کابھاری ایجنڈا تیار کر لیا ہے۔
وفاق اور پاک فوج کے خلاف غیر معمولی سرگرمیاں اور ایک نئے قائم شدہ ریڈیو سٹیشن سے پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ اور پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنے کے لئے بین الاقوامی میڈیا میں شائع ہونے والے مواد سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ مختصراً یہ کہ داعش، را اور مودی کی راشٹریہ سیوک سنگھ کے ایجنڈے کو جسے افغانستان کی ٹھوس تائید حاصل ہے آگے بڑھا رہی ہے۔ ان پاکستان دشمن قوتوں نے ملک اور بالخصوص خیبر پی کے اور بلوچستان میں اپنی مذموم سرگرمیوں کے لئے ایسے وقت کا انتخاب کیا ہے کہ پاکستان عام انتخابات کے باعث نازک ترین لمحات سے گزر رہا ہے۔ بدقسمتی سے بلوچستان میں بعض سیاسی حلقے، ان پاکستان دشمن سرگرمیوں کو غیر معمولی اہمیت دے رہے ہیں۔ ان حلقوں کو غالباً یہ احساس ہی نہیں کہ ان کے رویوں سے ملک کو کس قدر نقصان پہنچے گا اور اس کے نتائج و عواقب کیا ہوں گے۔ را کے ایجنٹ کل بھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد تو کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ بھارت، پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے کس قدر بے تاب ہے۔
داعش، بھارتی ایجنٹوں سے مل کر پاکستان میں دو نکاتی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ پہلا انتخابی جلسوں اور ریلیوں کے دوران دہشت گردی کی زیادہ سے زیادہ کارروائیاں کرکے ملک میں خوف و ہراس پھیلانا اور بے یقینی کی صورت حال پیدا کرنا اور دوسرا بلوچستان اور خیبر پی کے میں خلفشار پیدا کرکے پاکستان کو غیر مستحکم کرنا، داعش اور را کے گٹھ جوڑ نے پاکستان کے خلاف اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل یعنی دہشت گردی کے لئے ایسا وقت چنا ہے کہ عام انتخابات ہو رہے ہیں اور حکومت اپنی ساری توجہ پرامن ماحول میں شفاف الیکشن کرانے پر مبذول کئے ہوئے ہے۔ میں نے قوم کو گزشتہ ماہ پیشگی طور پر آگاہ کر دیا تھا کہ داعش اور پاکستان دشمن عناصر اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لئے انتخابات سے پہلے کے ایام اور پولنگ کے دن سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔
بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں اتخابی جلسوں کے دوران دہشت گردی کے پے در پے واقعات نے میرے خدشات کو درست ثابت کر دیا ہے۔ ان وارداتوں میں سینکڑوں بے گناہ افراد شہید اور زخمی ہوئے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو پاکستان دشمن ایجنڈا ناکام بنانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔ کیا یہ امر چشم کشا نہیں کہ داعش نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں خوف و ہراس پیدا کرنے کی خاطر خودکش دھماکوں کے لئے بارہ جولائی کا دن منتخب کیا۔ یہ وہ دن ہے جب نواز شرف نے پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ ان واقعات میں دو نوجوان محب وطن اور معروف سیاستدان ہارون بلور اور سراج رئیسانی شہید ہو گئے۔ دونوں واقعات کا ایک ہی دن وقوع پذیر ہونا خصوصاً قابل غور ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ داعش نے اپنی سرگرمیاں صرف یہاں تک ہی ختم نہیں کرنی بلکہ یہ سلسلہ آگے پولنگ کے دن تک چلے گا۔ نیکٹا نے حال ہی میں جو انتباہات جاری کئے ہیں ان سے بھی میرے ان خدشات کی تائید ہوتی ہے۔
گزشتہ انتخابات کے برعکس جبکہ طالبان نے پاکستان مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کو چھوڑ کر صرف پاکستان پیپلز پارٹی کونشانہ بنانے کا فیصلہ کیا تھا، اس بار دھمکیوں کے پیش نظر تمام بڑی سیاسی پارٹیوں بشمول پاکستان مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کو الرٹ وارننگ جاری کی گئی ہے، جو خاصا سنجیدہ مسئلہ ہے اور نظرانداز نہیں ہونا چاہئے۔ یہ اس امر کا اشارہ ہے کہ اب داعش کی دہشت گردی کی کارروائیوں اور حملوں سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔ 2013ءکے انتخابات میں طالبان نے تنہا پی پی پی کو نشانے پر رکھا تھا اور پاکستان مسلم لیگ ن کیلئے صورتحال نہ صرف پرامن بنائے رکھی بلکہ اُس کے اور پی ٹی آئی کے حق میں دوستانہ بیانات بھی جاری کئے۔ دہشت گردوں نے اگرچہ تمام سیاسی پارٹیوں کو خوفناک نتائج کی دھمکیاں دی ہیں تاہم تمام مذہبی ، سیاسی پارٹیوں ماسوائے جمعیت علمائے اسلام کو منہا کرتے ہوئے اکرم درانی کی ریلی پر حملہ کیا گیا۔ تمام سیاسی قیادت، سیاسی پارٹیوں کے رہنماﺅں کو اتنازیادہ پُراعتماد بھی نہیں ہونا چاہئے کہ دشمن کو قومی رہنماﺅں کی زندگیوں سے آسانی کے ساتھ کھیلنے کا موقع مل جائے ۔
میرے لئے یہ امر حیرت انگیز ہے کہ ایک طرف چیئرمین پیپلز پارٹی کا راستہ روکا جاتا اور انہیں عوامی جلسہ کرنے کا آئینی حق بھی نہیں دیاجاتا، لیکن دوسری پارٹیوں کے رہنماﺅں کے پروگرام میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈالے بغیر انہیں اپنے مقررہ شیڈول کے مطابق اپنے پسندیدہ اور منتخب مقامات پراپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی ممکنہ سہولیات کے ساتھ کھلے عام اجازت دی گئی۔ حکومت کیلئے ان دھمکیوں کا سنجیدگی سے تجزیہ کرنا ضروری ہے کہ آیا یہ کسی خاص پارٹی اور مخصوص افراد کیلئے تو نہیں۔ یوں لگتا ہے داعش نے اپنی لسٹ میں منتخب افراد کو ٹارگٹ کر رکھا ہے ۔ حکومتی حلقوں اور سکیورٹی اداروں کو اب داعش کی موجودگی بارے کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہنا چاہئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ان کے حقیقی مقاصد اور عزائم کا کھوج لگانے کی کوشش کی جائے اور معلوم کیا جائے کہ اس کا ایجنڈا دہشت گردانہ کارروائیوں کیلئے انفرادی یا پارٹی کی عمومی پالیسی کے تحت ہے۔
مجھے امید ہے کہ حکومت اور ایجنسیاں اصلاح احوال کیلئے درج ذیل اقدامات پر فوری عمل درآمد کریں گی۔ افغان حکومت سے معصوم پاکستانی شہریوں کے قتل اور دہشت گردی کی تازہ ترین دو وارداتوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے باعث خالد خراسانی کی فوری حوالگی کا مطالبہ کیا جائے۔
سیکورٹی کے حوالے سے وزیراعظم کی طرف سے قومی سطح کی ایک کانفرنس فوری بلائی جائے جس میں تمام سیاسی جماعتوں، دفاعی فورسز کے نمائندے، ہوم سیکرٹری اور تمام انٹیلی جنس ایجنسیاں شریک ہوں تاکہ پاکستان کے دشمنوں کو ایک اجتماعی پیغام دیا جا سکے۔ نیشنل ایکشن پلان کو ایک بار پھرزیر غور لا کر اس کی روشنی میں اس پر موثر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی حکمت عملی وضع کی جائے۔
دہشت گردی کی موجودہ لہر آنے والے وقتوں میں کچھ مزید سانحات کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ جو داعش نے انتخابات سے قبل طے کر رکھے ہوں گے۔ وزیراعظم، وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں کودہشت گردی کی اس لہر کو روکنے کیلئے ہنگامی اور جنگی بنیادوں پراقدامات کرنے کی ہدایات جاری کریں۔ دعا ہے اللہ پاکستان کی حفاظت کرے اور وطن عزیزاس طرح کے مزید سانحات سے محفوظ و مامون رہے۔
(کالم نگار پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سینیٹر ہیں۔ وزیر داخلہ بھی رہ چکے ہیں۔ سینٹ کی منشیات اور داخلہ امور کی باڈی اور تھنک ٹینک ”گلوبل آئی“ کے چیئرمین ہیں) ۔!!