میاں نواز شریف اور محترمہ مریم نواز شریف خاندان کی ہر دل عزیز خاتون بیگم کلثوم نواز کی تیمارداری کے لیے لندن گئے جو بدقسمتی سے موت و حیات کی کشمکش سے گزر رہی ہیں۔ اللہ ان کو صحت کاملہ عطا فرمائے۔ احتساب عدالت نے ان کی عدم موجودگی میں ایون فیلڈز اپارٹمینٹس لندن کے مقدمے میں کڑی سزائیں سنادیں۔ ان حالات میں میاں صاحب کے لیے واپسی کا فیصلہ آسان نہیں تھا۔ میاں صاحب اگر واپس نہ آتے تو مسلم لیگ(ن) کی انتخابی مہم انتہائی مشکلات کا شکار ہوجاتی لہذا انہوں نے اپنی جماعت کے مستقبل کی خاطر پاکستان واپسی کا فیصلہ کیا ان کا خیال تھا کہ ان کا عدلیہ اور پاک فوج کے خلاف بیانیہ بہت مقبول ہوچکا ہے۔ انتخابی ماحول کی وجہ سے مسلم لیگ کے متوالے متحرک ہوچکے ہیں۔ لاہور مسلم لیگ(ن) کا مضبوط گڑھ ہے لہذا جب وہ لاہور ائیر پورٹ پر اُتریں گے تو لاکھوں متوالے ان کے استقبال کے لیے آئیں گے اور وہ جلوس کی قیادت کرتے ہوئے رائے ونڈ پہنچیں گے اور رائے ونڈ سے براستہ جی ٹی روڈ اسلام آباد پہنچ کر گرفتاری پیش کردیں گے اور پنجاب میں انتخابات کی بازی آسانی سے جیت جائیں گے۔ میاں صاحب نے جب لاہور کی فضاﺅں میں پہنچ کر فضائی نظارہ کیا تو ان پر اصل حقیقت کھل گئی۔ لاہور کی چند سڑکوں پر متوالے موجود تھے مگر ائیر پورٹ خالی پڑا تھا لہذا میاں صاحب نے کسی مزاحمت کے بغیر گرفتاری پیش کردی اور نیب حکام پولیس کی معاونت سے ان کو آسانی کے ساتھ اڈیالہ جیل راولپنڈی لے گئے۔ بقول غالب:
تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے پر یہ تماشہ نہ ہوا
راقم عینی شاہد ہے جب جنرل ضیاءالحق نے اس خوش فہمی میں بھٹو شہید کو 1977ءمیں ”حفاظتی نظر بندی“ سے رہا کیا کہ ان کی عوامی مقبولیت ختم ہوچکی ہے اور وہ لاہور ائیر پورٹ پر آئے تو لاکھوں جیالے اپنے لیڈر کے استقبال کے لیے جمع تھے۔ ائیر پورٹ پر جیالوں کا قبضہ تھا۔ پاک فوج کے دستے نے رن وے کے گیٹ پر ریڈ لائن لگا کر اس پر بندوقیں رکھ دی تھیں۔ فوج کے جوانوں کو حکم تھا کہ اگر متوالے ریڈ لائن کراس کریں تو گولی چلادیں مگر جب بھٹو شہید کا طیارہ لینڈ کیا اور وہ طیارے سے نیچے اُترے تو راقم سمیت سینکڑوں جیالوں نے بلاخوف و خطر ریڈ لائن کو کراس کرلیا۔ راقم (اس وقت ایم پی اے اور پی پی پی پنجاب کا سیکریٹری اطلاعات تھا) نے آگے بڑھ کر بھٹو صاحب کو اپنے کندھے پر اُٹھا لیا اور پھر جیوے جیوے بھٹو جیوے کے نعرے ائیر پورٹ کی فضاﺅں میں گونجنے لگے۔ اس غیر متوقع پرجوش استقبال کے بعد جنرل ضیاءالحق کی رات کی نیندیں حرام ہوگئیں۔ اس نے اکتوبر 1977ءمیں ہونے والے انتخابات ملتوی کردئیے اور بھٹو صاحب کو قتل کے مقدمے میں گرفتار کرلیا۔ قوم کے لیے خون پیسہ ایک کرنے اور الزامات کا بوجھ اٹھائے لیڈر میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ زندہ دلان لاہور کو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا بے مثال تاریخ ساز استقبال اپریل 1986ءآج تک یاد ہے۔ وہ جلاوطنی ختم کرکے لندن سے لاہور آئی تھیں۔ لاہور ائیر پورٹ سے مینار پاکستان تک عوام کا سمندر تھا۔ جنرل ضیاءالحق طاقتور صدر تھے شریف النفس محمد خان جونیجو وزیراعظم تھے۔ میاں نواز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے۔ کاش میاں صاحب تاریخ سے سبق سیکھتے اور صرف موٹرویز اور میٹروز جیسے میگا پراجیکٹس پر اپنی تمام توانائیاں صرف کرنے کی بجائے علامہ اقبال کی فکر سے رہنمائی حاصل کرتے۔
جہاں تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ وخشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
پشاور، بنوں اور مستونگ (بلوچستان) میں دہشت گردی کے اندوہناک واقعات نے انتخابی ماحول کو سوگوار بنادیا ہے۔ انتخابی اُمیدوار ہارون بلور اور سراج رئیسانی کی شہادت انتہائی افسوسناک ہے۔ سینکڑوں شہری اپنی جانوں کی بازی ہار گئے۔ خفیہ ایجنسیوں نے خود کش حملوں کی پیشگی اطلاع دے دی تھی مگر سکیورٹی کے ادارے معصوم اور بے گناہ شہریوں کی جانیں بچانے میں ناکام رہے۔ دہشت گردوں کے حملوں سے انتخابی ماحول متاثر ہوا ہے اس میں جوش و خروش پیدا نہیں ہوسکا۔ مسلم لیگ(ن) اپنے منصوبے کے مطابق انتخابی غبارے میں ہوا نہیں بھرسکی۔ میاں نواز شریف کی واپسی کے سکرپٹ میں یہ بات شامل تھی کہ ان کو ہر روز احتساب عدالت میں پیش کیا جائے گا جہاں پر ان کو میڈیا سے بات کرکے ووٹرز میں ہمدردی اور جوش پیدا کرنے کا موقع ملے گا۔ نگران حکومت نے سکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر اڈیالہ جیل میں مقدمات کی سماعت کا فیصلہ کیا ہے جس سے میڈیا زبردست پذیرائی کے امکانات نہیں رہے۔ میاں نواز شریف کے پاس قانونی آپشنز موجود ہیں۔ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں احتساب عدالت کے فیصلے کو چیلنج کرسکتے ہیں اور ضمانت پر رہا ہوسکتے ہیں۔ اگر میاں صاحب 25جولائی تک جیل میں رہیں تو ان کو ہمدردی کا ووٹ مل سکتا ہے۔ ضمانت پر رہائی سے ان کا انتخابی بیانیہ اور نعرہ ”ووٹ کو عزت دو“ متاثر ہوسکتا ہے اور تحریک انصاف انتخابی فائدہ اُٹھاسکتی ہے۔
میاں نواز شریف کی واپسی سے مسلم لیگ(ن) کے کارکن اور ووٹر متحرک ہوئے ہیں جو پولنگ ڈے پر گھروں سے باہر نکلیں گے اور مسلم لیگ(ن) کی کامیابی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان دہشت گرد حملوں کے باوجود جرا¿ت اور دلیری کے ساتھ انتخابی جلسے کررہے ہیں اور ”اب نہیں تو کبھی نہیں“ کے اُصول پر انتخابی جنگ لڑرہے ہیں۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف سزاﺅں اور میاں شہباز شریف کے خلاف ممکنہ مقدمات کی بناءپر مسلم لیگ(ن) کے سیاسی مستقبل کے بارے میں جو شکوک و شبہات اور وسوسے پیدا ہوئے ہیں ان سے تحریک انصاف فائدہ اُٹھاسکتی ہے۔ انتخابات میں ایک ہفتہ باقی ہے لہذا انتخابی نتائج کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ پاکستان کی سیاست میں مجرموں کو گلوریفائی کیا جاتا ہے جبکہ شہیدوں کے بارے میں بے حسی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ مستونگ میں خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی اور لاہور کی سڑکوں پر عدلیہ سے سزا یافتہ لیڈر کے لیے ڈھول بجائے جارہے تھے۔ سیاست قومی یکجہتی پیدا کرنے کے بجائے قوم میں تقسیم اور انتشار پیدا کررہی ہے جو شخصیت پرستی کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کی سلامتی کے بارے میں تمام سیاسی جماعتوں کو اتحاد اور عملی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔ ریاستی ادارے سیاسی لیڈر اور عوام امن کے قیام اور شفاف انتخابات پر یکسو ہوجائیں۔ خدا کرے 25جولائی کے انتخابات پاکستانی قوم کے لیے نیک فال ثابت ہوں۔ احتساب کا عمل مکمل غیر جانبداری کے ساتھ منطقی انجام تک پہنچایا جائے تاکہ پاکستان کسی رکاوٹ کے بغیر درست اور مثبت کی جانب گامزن ہوسکے۔!!
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024