کیا ہم بن لڑے پاکستان کی نظریاتی جنگ بھی ہار چکے ہیں؟ دو قومی نظریہ جو پاکستان کی اساس اور بنیاد تھا اس ملک میں اجنبی ہو چکا ہے۔ ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں عملًا متفق ہوچکی ہیں کہ تقسیم ہند کا فیصلہ خاکم بدہن غلط تھا ۔باور کرایا جا رہا ہے شہدائے پاکستان کے مقدس لہو پر استوار یہ سرحد محض ایک لکیر ہے اس سے زیادہ کچھ نہیںاور ہم ایک ہیں خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔یہ تین الگ الگ مناظر ہیں انہیں غور سے دیکھئے کراچی کا ایک مندر ہے جناب نوازشریف تقریب میں موجود فرما رہے ہیں میں ہولی کھیلنا چاہتا ہوں اس کے رنگوں میں رنگنا چاہتاہوں۔ لاہور میں فرماتے ہیں ہمارے درمیان کوئی فرق نہیں بس اک لکیر ہے میں بھی آلو گوشت کھاتا ہوں وہ بھی آلو گوشت کھاتے ہیں۔
دوسرا منظر سندھ کے کسی مندر کا ہے بلاول بھٹو زرداری ساری سندھ کابینہ کے ہمراہ شیو دیوتا کو دودھ سے غسل دے رہے ہیں اور پھر اس مقدس دودھ کو بڑی عقیدت سے چکھ رہے ہیں۔اور تیسرا منظر جناب عمران خان کا ہے وہ اپنی اہلیہ اور روحانی پیشوا پنکی پیرنی کے ہمراہ عظیم صوفی بزرگ حضرت بابا فرید گنج شکر کے مزار کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں اور یہ سب کچھ وہ وزیراعظم بننے کے لئے کر رہے ہیں ۔21 جون کو یہ عرض کی تھی کہ ” اس کالم نگار کے خیال میں انتخاب 2018 میں مقابلہ نواز شریف اورعمران خان کی بجائے پاکستان اورنواز شریف کے باطل خیالات وتصورات کے درمیان ہوگا۔ خاکم بدہن وہ دوقومی نظریہ جو پاکستان کی اساس تھا آج عملاً ایک مذاق سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ بھارت کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات کا مذاق اڑایا جارہا ہے اسے ناممکن اوراحمقانہ تصور قرار دیا جارہا ہے کہ سوا ارب اور 20 کروڑکیسے برابر ہوسکتے ہیں“۔
یہ سب خام خیالی تھی اب معلوم ہورہاہے کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتیں نظریاتی اعتبار سے بنیادی نقطے پر متفق ہو چکی ہیں کہ ہندوو¿ں اور مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں ہے ابوالاعلیٰ کے روحانی وارث تو ادنیٰ سیاسی خواہشات کے پیچھے ہلکان ہوتے پھرتے ہیں۔جناب عمران خان کے تعظیمی سجدے کے بارے میں ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے عمران خان کے اندراسلام کےساتھ تعلق اورتڑپ توہمیشہ سے ہے اوروہ بھی ایک نَومسلم کی سی تڑپ، اب یہ روحانیت اوردرباروں پہ حاضری ہے، ان کی اہلیہ کابھی ایک خاص روحانی معاملہ ہے، اسے شریعت کے ترازومیں تولنے کی ضرورت نہیں، کسی اورکااس سے کیاتعلق؟ ہرشخص کوحق حاصل ہے وہ جس طرح چاہے عقیدت کااظہارکرے۔ بابا فرید گنج شکر کی چوکھٹ پربہت سے عقیدت مند بوسہ دیتے ہیں، عمران خان کے اندر اسلام کی تڑپ شروع سے موجود تھی جس کا مظاہرہ اب کر رہے ہیں “۔
اسی طرح ایک اور استاد صحافت فرماتے” عمران خان کی تعظیم کو زیادہ زیادہ سے غلو قرار دیا جاسکتا ہے“
مفتی سعید خان ،جناب عمران خان کے ازحد قریبی دوست اور تحریک انصاف کی سنٹرل ایگزیکٹو کے رکن’ سب سے بڑھ کر جناب عمران خان کے مستقل نکاح خواں بھی رہے ہیں کہ جمائما’ ریحام اور بشری بی بی کے نکاح خواں جناب مفتی سعید ہی تھے اس سے جناب عمران خان سے ان کی قربت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ویسے بھی مفتی صاحب غیر معمولی شخصیت ہیں ایک عظیم الشان کتب خانے کے محور پر استوار ان کا تحقیقی مرکز مری کے نواح میں مرجع خاص و عام ہے
مفتی سعید نے شدید گرفت کرتے ہوئے فرمایا”جب دیوالی پرنوازشریف مندر پہنچ گئے تھے تو ہم نے اسی جگہ پہ بیٹھ کے آپ سے ہی کہا تھاکہ ہمیں سیاست سے کوئی غرض نہیں ہے لیکن اگر ہولی، دیوالی ہی اس ملک میں آپ نے کھیلنی ہے توہندوستان تقسیم کی ضرورت کیا پیش آئی گئی تھی سب وہیں ہولی دیوالی کھیلتے“ بلاول زرداری نے بتوں پر دودھ چڑھایا اور بتوں کی عبادت کی انہیں کوئی احساس نہیں ہے کہ وہ کس ملک میں بڑے لیڈر ہیں۔ عین ممکن ہے کہ کبھی وزارت عظمیٰ پر آجائیں یہاں کیا پتا چلتا ہے ہم یہ نہیں کہتے کہ بتوں کی پوجا سے مشرک ہوگئے ہیں لیکن اس فعل کے شرک ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔
تیسرے لیڈرعمران خان نے جو کچھ کل انہوں نے کیا ہے کوئی پوچھنے سننے والا نہیں ہے کہ یہ کیا کرنے جارہے ہیں سارے لیڈرمحض اس لئے کہ غلط فہمی اور غرے میں مبتلا ہیں کہ تمہیں حکومتیں مل جائیں گی اوریہ ہوجائے گا۔ ہم نے مانا آپ کو حکومت مل گئی ہم نے مانا آپ نے پوری دنیا پر حکومت کرلی اللہ کے سامنے جواب دینا ہے یا نہیں دینا، خداکوبھی منہ دکھانا ہے کہ نہیں دکھانا،امت مسلمہ میں کوئی ایک فرقہ اس بات پر قائل ہوا ہو کہ تم سجدے جیسی حرکات کرو اورجاکے چوکھٹ کو چوموکہ کون اس بات کا قائل ہے۔ ہمارے چار فقہی مکاتب فکر مسلمہ تسلیم شدہ ہیں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اورشیعہ چاروں کے علما سے پوچھو وہ گواہی دیں گے کہ ہم نے کبھی تلقین نہیں کی کہ جہلا کا یہ فعل کرو ۔ چلو دس چیزوں کی تاویل کرلیں قبر پر چادرڈالنے کی تاویل کرلیں اورپھول چڑھانے کی بھی تاویل کرلیں اورننگے پاﺅں کوبھی کتاب و سنت سے ثابت کرلیں مگر یہ جو فعل ہے نا(تعظیمی سجدے کا’ چوکھٹ کو اس انداز سے چومنے کا یہ فعل جائز نہیں ہے) اللہ کے ہاں ‘ عین ممکن ہے کہ خدا پوچھے کہ یہ آپ نے حرکت کی اورخدا انہیں بھی پوچھے اور خدا ہم سے بھی پوچھے تم کہاں مرگئے تھے تم کیوں نہیں بولے۔ ان تینوں نے جو افعال کیے ہیں وہ شرک اورکبیرہ گناہ پر ہیں ہم ان سے بیزاری کا حال اظہار اس لئے کررہے ہیں کہ اللہ قیامت والے دن ہم سے نہ پوچھے اور نہ خدا ان سے یہ پوچھے ہم ان کے انتہائی طرف دار تھے اور ووٹ ان کو دیا کرتے تھے آج کچھ بھی نہ کرو۔ جاکر سورہ مائدہ کی وہ آیات پڑھنا جن میں اللہ نے فرمایا ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو یہودی اور عیسائی تو نہیں ہیں لیکن یہودیوں کے افعال کی تائید کرتے ہیں کفرکوبرانہیں کہتے اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ بھی گنہگار ہیں اوران کے ساتھ بھی خداقیامت میں نمٹے گا اللہ کے نام پرآپ ہماری عزت کرتے ہیں اورہم آپ کی سمع خراشی کرتے ہیں اور اللہ ہی کے نام پر سب کچھ چل رہا ہے تویہ حرکتیں جو جس مسلک کا بھی ہے ہم کہتے ہیں پبلک میں تشہیر کیوں کرتے ہو اور لوگوں کو ترغیب کیوں دیتے ہو۔ اس کا مطلب ہے یہ کہ ایمان اور کفر کی حرکتیں ان دونوں پہ کوئی وزن ہی نہیں ہے ۔ جھوٹ اور شرک کا اللہ نے اکٹھا ذکر کیا ہے یہ سیاستدان کیوں جھوٹ کے عادی ہیں اس لئے انہیں ذرا برابر پروا نہیں ہے کہ ایسے افعال نہ انجام دیں کہ جن سے اللہ نے منع کیا ہے۔ اس لئے ہم آپ سے صاف کہہ رہے ہیں ایسے نہ ہوکہ قیامت میں ہم پرعلم کے نام پر جو تہمت لگی ہوئی ہے قیامت میں کہیں یہودیوں کے ساتھ کھڑے ہوئے ہوں اور قیامت میں ہم سے پوچھے کہ منبر پر بیٹھے تھے اوراتنا بھی نہیں ہوسکا کہ جہاں اس طرح کی حرکتیں ہورہی تھیں تم اسے برا کہتے۔ اللہ گواہ ہے اس بات پہ اورقیامت میں گواہ رہنا ہم اس فعل سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ بیزاری کا اظہار کرتے ہیں اور ہم ہرگز ان چیزوں میں شریک نہیں ہیں۔ اللہ کی پناہ مانگتے ہیں کہ خدا کی توحید میں نقب لگائیں یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی ختم نبوت کے غدار بنیں“!!
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024