پاکستانی سماج بعض تبدیلیاں پہلی بار دیکھ رہا ہے۔ جنوبی پنجاب کا جاگیرداری ماحول حیران ہے کہ چھوٹے چھوٹے کاشت کار سیاسی زمینداروں کی سابقہ کارکردگی پر سوال اٹھا رہے ہیں، وسطی اور شمالی پنجاب کے ملازمت پیشہ اور صنعتی مزدور ووٹ لینے کے لئے آنے والوں سے پوچھ رہے ہیں کہ انہوں نے تونائی، تعلیم، صحت اور روزگار کی بحالی کے لئے کون سی خدمات انجام دیں۔ پاکستان کی تاریخ میں ووٹر نے کبھی اپنے مطالبات اس قدر نڈرہو کر حکمران اشرافیہ کے سامنے رکھے جس طرح آج کل دیکھنے میں آ رہا ہے۔
عمران خان نے جب تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو ان کا ساتھ دینے والے لوگوں کی تعداد انگلیوں پر شمار کی جا سکتی تھی۔ انہوں نے ملک بھر کے دورے کئے۔ شفاف کردار کے لوگ ڈھونڈے، انہیں عہدے تفویض کر کے سیاسی تبدیلی پر آمادہ کیا۔ ایسے نوجوانوں سے مدد لی جو جمہوریت اور موروثی حاکمیت میں فرق کر سکتے تھے۔ یہ سب آسان نہیں تھا۔ مالی وسائل درکار تھے، انسانی توانائی کا بنڈھار چاہئے تھا۔ افرادی قوت کی ضرورت تھی مگر کپتان کی جدوجہد جاری رہی، وہ کمزور ٹیم کے ساتھ میدان میں رہا۔ کہا گیا کہ عمران خان کی شکل میں نیا اصغر خان پیدا ہوا ہے جس کی طرف لوگ متوجہ ہوتے ہیں، اس کے جلسوں میں شرکت کرتے ہیں، اسے پسند کرتے ہیں مگر ووٹ نہیں دیتے۔ آج اپنے اردگرد برپا انتخابی مہم اور ماحول کا جائزہ لیں، آپ اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ عمران خان اگلی حکومت بنانے کو تیار ہے۔ وہ تبدیلی کی حرارت ڈھونڈنے کے لئے برسوں تک محنت کرتا رہا۔ آج اس کا سونامی فرسودہ نظام اور موروثی حکمرانی کو بہانے کو بیقرار ہے۔
عمران خان نے اپنی جماعت کی نظریاتی شناخت نیشنلزم پر رکھی۔ انہوں نے بدعنوانی کے خاتمہ کو عوامی ایجنڈے پر سرفہرست رکھا۔ پی ٹی آئی میں جماعتی انتخابات کرائے۔ کہا گیا جماعت میں دھڑے بن جائیں گے، لوگ عہدوں کے لئے لڑیں گے۔ انہوں نے پھر بھی پارٹی انتخابات کرائے۔ کچھ اختلافات ہوئے مگر پھر سب نے اسے جموری اختلاف کے طور پر قبول کر لیا۔ عمران خان نے کارکن کی تربیت کی۔ 126 دن کا دھرنا، حکومتی ناانصافیوں اور غلط پالیسیوں کے خلاف احتجاج، دھاندلی کے خلاف مظاہرے اور عوامی حقوق کے لئے آواز بلند کر کے کارکنوں کو بتایا کہ جمہوریت صرف ووٹ دینے کا نام نہیں، شہری اور قومی حقوق کے تحفظ کے لئے بیدار رہنا بھی ضروری ہے۔ عمران خان نے 2011ء میں مینار پاکستان پر جس دن عظیم الشان جلسہ کیا اس کے بعد کارکنوں کو سونے نہیں دیا۔ یہ بیدار کارکن اب اس کے دست و بازو بن کر نئی تاریخ رقم کرنے کو تیار ہیں۔ پچھلے دو مارشل لائوں کی وجہ سے ملک میں وفاقی جماعتوں کا کردار کمزور ہوتا رہا۔ علاقائی اور صوبائی شناخت رکھنے والی جماعتیں ابھرنے لگیں۔ ان جماعتوں نے اپنے منشور اور ایجنڈے مقامی حامیوں کو پیش نظر رکھ کر ترتیب دئیے اس لیے سیاست میں وفاق کی حیثیت نظرانداز کی جانے لگی۔ مسلم لیگ ن جب کبھی بحرانی دور کا شکار ہوئی اس نے اپنا بیس کیمپ پنجاب کو بنایا۔ مسلم لیگ کے صدر اپنی انتخابی مہم میں اب بھی لاہور اور پنجاب کی ترقی کی بات کر رہے ہیں۔ گزشتہ پانچ سال سے ان کی مرکز میں بھی حکومت تھی ، مرکز میں پہلے بھی دو بار ان کی حکومت رہی ہے پھر پوچھاجانا چاہئے کہ کوئٹہ کو لاہور کیوں نہ بنایا جا سکا۔ پیپلز پارٹی پنجاب کے پی کے اور بلوچستان میں غیر متعلق ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کی سیاست دیہی سندھ تک سکڑ گئی ہے۔ اس کے لئے اس بار حالات وہاں بھی پریشان کن نظر آتے ہیں۔ ایم ایم اے نے ملک کے مختلف حصوں میں بکھرے ہوئے ووٹ بینک کی مالک مذہبی جماعتوں کو جمع کر کے خود کو وفاق کی سیاسی قوت اظہار کرنے کی کوشش کی ہے لیکن گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ایم ایم اے میں شامل مذہبی جماعتوں کا ووٹ نئی مذہبی جماعتوں کی جیب میں چلا گیا ہے۔ تحریک انصاف نے ملک کے چاروں صوبوں میں امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ تحریک انصاف نے علاقے، نسل اور صوبے کی بجائے وفاق کی بنیاد پر سیاست کو پروان چڑھایا ہے۔ ایسا ملک جس میں علاقے، مسلک اور نسل کی بنیاد پر بھارت اور امریکہ کی مسلسل سازشیں جاری ہیں وہاں وفاق پرست سیاسی قوت کا مقبول اور مضبوط ہونا خوش آئند ہے۔
عمران خان نے تبدیلی کا جو سفر نامساعد حالات میں شروع کیا تھا وہ اب منزل کے قریب پہنچ چکا ہے۔ انتخابی ٹکٹوں کے معاملے پر جو مسائل پیدا ہوئے انہیں طے کر لیا گیا ہے۔ خان صاحب نے اپنے کارکنوں کی جو تربیت کی اس نے بعض پرانے کارکنوں کو ٹکٹ نہ ملنے پر دل شکستہ نہیں ہونے دیا اپنی شکایات اور گلہ اعلیٰ قیادت تک پہنچانے کے بعد یہ نظریاتی لوگ پھر سے سرگرم عمل ہیں۔
عمران خان کی قیادت میں دو عشرے پہلے جو نوجوان جمع ہوئے تھے وہ آج بالغ نظر سیاسی رہنما بن کر ابھر رہے ہیں۔ یہ نوجوان محنت پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کی پیشقدمی جمہوریت کے استحکام کا باعث بن رہی ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024