ڈاکٹر محسن مگھیانہ، فیصل مگھیانہ میموریل ہسپتال جھنگ کے چیف سرجن ہے۔ بچوں کے جسمانی نقائص کے علاج پر انہوں نے خصوصی کورس کیا ہوا ہے۔ اردو میں اب تک ان کی 17 اور پنجابی میں سات کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ان میں تقریباََ بارہ کتابیں طنز و مزاح پر ہیں۔ ممتاز سرجن ہونے کے باوصف طنز و مزاح پر لکھنا خاصا دشوار عمل ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر محسن مگھیانہ کا لکھنا ہے کہ ’’سرجن ہونے کے ناتے ہر وقت غموں، دکھوں اور لوگوں کے زخموں سے پالا پڑتا ہے۔ اگر میں مزاح نگاری کی طرف نہ آتا تو کرب میں مبتلا ہو جاتا‘‘ ڈاکٹر صاحب مزاح میں بھی قلم سے نشتر کا کام یا نشتر کو بطور قلم استعمال نہیں کرتے۔ حال ہی میں ان کے کالموں کا نیا مجموعہ ’’آ بیل مجھے لتاڑ‘‘ شائع ہوا ہے۔ ڈاکٹر محسن مگھیانہ نے کالموں میں انسانی سرشت کی کمزوریوں، جبلی و نفسیاتی شعبدہ بازیوں سے بڑے حسن و خوبی سے مزاح پیدا کیا ہے۔ ان کے کالم، کالم نگاری کی عام روایتی قسم کے کالموں کے بجائے مستقل قسم کے ادبی مضامین کا ایک خوشگوار فکاہی مجموعہ ہے۔ ان کالموں میں ٹچکر بازی، پھکڑ پن، ابتذال یا بے جا ٹھٹھہ اور سوقیانہ ظرافت کو بروئے کار لانے سے اجتناب کیا گیا ہے۔
محاورہ ہے ’’آ بیل مجھے مار یا بھکوس‘‘ (نہیں تو میں تجھے ماروں گا) ڈاکٹر محسن مگھیانہ نے اس کو ’’آ بیل مجھے لتاڑ‘‘ میں تبدیل کر دیا ہے۔ لتاڑنا کے معنی لاتیں مارنا، روندنا، یا پامال کرنا ہیں۔ جو شخص اپنے آپ کو خود مصیبت میں مبتلا کرے، ان کے بارے میں یہ محاورہ ہے۔ ’’آ بیل مجھے لتاڑ‘‘ کے کالم میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ’’ہم حیران ہوا کرتے تھے کہ بھلا سپین کے لوگوں کو خواہ مخواہ بیل سے مار کھانے کا شوق ہے اور لال کپڑا لہراتے ہوئے اسے ’’دعوت لڑائی‘‘ دے رہے ہوتے ہیں۔ بعض تو بیل لتاڑ بھی دیتے ہیں اور اس شوقِ مار میں کئی اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ شوق کا کوئی مول نہیں، تبھی تو سپین والے باقاعدہ میلہ منعقد کر کے کہتے ہیں کہ آ بیل مجھے مار۔ کچھ یہ بھی کہتے ہیں کہ آ بیل مجھے لتاڑ۔ وہ اس مار کھانے اور لتاڑے جانے میں بھی لذت محسوس کرتے ہیں‘‘ ۔
ڈاکٹر محسن مگھیانہ کے کالم مختلف اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ ان کے کالموں کا پہلا مجموعہ ’’مسئلہ ہی کوئی نہیں‘‘ 1996ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ’’مستیاں‘‘ اور ’’بھاگ ڈاکٹر بھاگ‘‘ شائع ہوئے۔ ڈاکٹر محسن مگھیانہ کا ’’بقلم خود‘‘ میں لکھنا ہے کہ ’’عموماََ کالم کرنٹ افیئرز پر لکھے جاتے ہیں۔تاہم وقتی طور پر یہ کالم نگاری کو کرنٹ مارتے ہیں مگر آہستہ آہستہ اس کی وولٹیج کم ہوتی جاتی ہے اور چند سالوں بعد اس میں کرنٹ ہی باقی نہیں رہتا۔ شاید یہی وجہ ہے کالمی ادب کو اکثر ادبی ناقدین اور ماہرین، ادب کا حصہ ہی نہیں سمجھتے اور ہم جیسے ادیب بھی اسی زمرے میں لپیٹے جاتے ہیں جو کہ ایسے معاشرتی موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں جس پر بات کرنا معاشرے کی نوک پلک سنوارنے کے لیے بے حد ضروری ہوتا ہے۔ ہم نے ایسے کالم لکھتے وقت زبردستی سے کوئی نصیحت گھسیٹرنے کی کوشش نہیں کی لیکن اکثر ہم غور کریں تو ہر ایک رونما ہونے والا واقعہ ہمیں کوئی نہ کوئی سبق دے جاتا ہے‘‘ شاید ہی کوئی ایسی صنف ادب ہو جس پر ڈاکٹر محسن مگھیانہ نے طبع آزمائی نہ کی ہو آپ کے سفرنامے، آپ بیتی، انشائیے، افسانے، ڈرامے اور شاعری پر مبنی کتابیں چھپ چکی ہیں۔
اکرم کنجاہی کراچی میں مقیم ہیں۔ ممتاز شاعر، ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ ’’غنیمت‘‘ رسالہ کے مدیر ہیں۔ دیباچے میں ڈاکٹر محسن مگھیانہ کی شگفتہ بیانیوں کے بارے میں لکھتے ہیں ’’ڈاکٹر محسن مگھیانہ کی شگفتہ بیانی کچھ حد تک ابن انشا کی نگارشات سے مشابہہ ہے اور ان کا اسلوب بیان جاوید چوہدری سے کچھ مماثلت رکھتا ہے۔ اس لیے کہ ڈاکٹر محسن مگھیانہ بھی اکثر اپنے کالم کا آغاز کسی مختصر واقعے، کسی لطیفے، کسی حکایت یا تمثیل سے کرتے ہیں اور کالم کو منطقی انجام تک لے جا کر سنجیدہ قومی یا بین الاقوامی مسئلے کی طرف اشارہ کر کے بات ختم کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ ابن انشا کی طرح نہ تو اپنی سیاحت کی کہیں کہانی سناتے ہیں اور نہ اپنے کالم کو جاوید چوہدری کی طرح اعداد و شمار اور سیاسی دلائل سے بوجھل کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے ہاں اہم قومی مسائل مثلاََ غیر ملکی قرضے، بجلی، مہنگائی، ٹیکس، انتخابی دھاندلی، سیلاب، ہماری تبدیل ہوتی سماجی اقدار، ہماری بے عملی اور دعاؤں پر انحصار وغیرہ جیسے مسائل پر کہیں طنز اور کہیں مزاح کے انداز میں بھرپور انداز میں اظہار خیال ملتا ہے مگر جغادریوں کی طرح انہوں نے اپنے کالم کو سیاست آلودہ ہونے سے محفوظ رکھا ہے‘‘
’’نچوڑلو‘‘ کالم میں ڈاکٹر محسن مگھیانہ لکھتے ہیں ’’ہمارے حالات کچھ بھی ہوں ، عوام کو چاہے پوری طرح نچوڑ لیا گیا ہو مگر وہ پھر بھی ہر وقت ’’نچڑنے‘‘ کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ بھوک سے بلبلاتی قوم پھر بھی ہر وقت قربانی دینے کو تیار بیٹھی ہوتی ہے چاہے وہ ایسا وقت ہو جب کہیں زلزلہ آ جائے یا شمالی وزیرستان میں آپریشن ہو تو قوم یکسو ہو کر ان کی مدد کو تیار ہوتی ہے۔ گو کہ حکومت محض انہی کو عوام سمجھتی ہے، جو بڑے شہروں میں رہتے ہیں اور انہی شہریوں کو بنانے اور سنوارنے میں لگی رہتی ہے جبکہ حتی المقدر ملک کے ہر شہری کو ہر طرح نچوڑا جارہا ہے‘‘ اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کے یہ کالم بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ تبدیلی آ رہی ہے، باغی زن مرید، نیا پاکستان، باگاں دے رکھوالے گاہلڑ، سب اچھا ہے وغیرہ۔ ڈاکٹر محسن مگھیانہ کی شخصیت اور فن پر متعدد یونیورسٹیز میں تحقیقی مقالے ایم اے اور ایم فل کی سطح پر لکھے جا چکے ہیں۔
ڈاکٹر محسن مگھیانہ نے کتاب کا انتساب ان بے وقوفوں کے نام کیا ہے جو پریشانیوں، مشکلات اور تکلیفوں کو خود سے دعوت دے کے کہتے ہیں۔
’’آ بیل مجھے لتاڑ‘‘ ۔!!
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38