عید پر کراچی کی سیرگاہیں غریبوں کے دم سے آباد
کراچی آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا شہر ہے۔ جس کی آبادی تین کروڑ کے لگ بھگ ہو گئی ہے۔ عروس البلاد جہاں دنیا کا متمول ترین شہر کہلاتا ہے وہاں غربت نے بھی جا بجا ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ 60 فیصد آبادی کچی آبادیوں میں رہتی ہے۔ جن کے پاس عید منانے کیلئے وسائل نہیں لیکن کراچی کی سیرگاہیں ان کے دم سے آباد ہیں جو کہ عید کی نماز پڑھ کر فیملی کے ساتھ گھروں سے نکلتے ہیں تو شام کو تھکے ماندے گھروں کو لوٹتے ہیں۔ شہر نگاراں میں ویسے تو بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے‘ سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں کوئی ٹرانسپورٹ سسٹم نہیں لیکن تفریحی گاہوں کی کوئی کمی نہیں۔ سب سے بڑی دولت ساحل ہیں جو کہ چرنا آئی لینڈ سے کیٹی بندر تک پھیلے ہوئے ہیں۔ کراچی کی عید اس لحاظ سے بہت دلکش ہوتی ہے کہ غربت امارات کا فرق مٹ جاتا ہے اور سیر گاہیں صبح سے ہی بلاامتیاز بھر جاتی ہیں۔ رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس خاندان اپنا ٹفن ساتھ لاتے ہیں۔ صاحب حیثیت لوگ تفریحی گاہوں کے فاسٹ فوڈ ریستورانوں کا رُخ کرتے ہیں۔ ہر شخص فرہاں اور شاداں ہوتا ہے بچوں کے دمکتے چہروں سے خوشی پھوٹتی ہے۔ اور ہر سُو رنگ ہی رنگ بکھر جاتے ہیں اس طرح عید کراچی کے شہریوںکیلئے ایک خوبصورت ترین دن ہوتا ہے۔ جس روز لوگ دہشت گردی قتل غارت گری شدت پسندی اور ٹارگٹ کلنگ کو بھول جاتے ہیں۔ کلفٹن سی ویو‘ ہل پارک‘ بوٹ بیسن ‘ سفاری پارک‘ الہ دین پارک‘ سینڈز پٹ‘ کیماڑی ‘ بابا بھٹ منوڑا‘ ہاکس بے‘ کیپ مائونٹ کراچی کے بڑے تفریحی مقامات ہیں۔ عزیز بھٹی پارک اُجڑ گیا۔ اس کی جھیل گندے پانی کے جوہڑ میں تبدیل ہو گئی جبکہ جھیل پارک تیزی سے ویرانے میں تبدیل ہو رہا ہے ایک زمانے میں جھیل پارک اور عزیز پارک کا شمارکراچی کے بڑے پارکوں میں ہوتا تھا لیکن دونوں پارک لینڈ مافیا کی دسترس میں آ گئے ہیں، کوئی پُرسان نہیں۔ کراچی کی کوسٹ لائن بہت طویل ہے جہاں یومیہ لاکھوں شہری تھکن دور کرتے ہیں۔ غریب سمندر میں نہاتے ہیں۔ امیر جدید اور خوبصورت کشتیوں میں گھومتے ہیں۔ بوٹ کلب مرینا کلب بھی موجود ہیں۔ سمندر میں کشتی رانی مچھلیاں پکڑنے اور دوسرے سمندری سپورٹس کے مقابلے ہوتے ہیں کشتیوں کی ریس بھی ہوتی ہے۔ عید پر ساحلوں اور سمندر میں رونق بہت بڑھ جاتی ہے کلفٹن سی ویو مرکزی ساحل ہیں جہاں غیر معمولی رش ہوتا ہے اور عید پر کلفٹن اور سی ویو پر تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی۔ لوگ عید کی نماز کے فوراً بعد پہنچنا شروع ہو جاتے ہیں اور نصف شب تک لوگ موجود ہوتے ہیں اس دوران کلفٹن اور اس کے اطراف کے علاقوں میں کئی دن تک ٹریفک جام رہتا ہے پبلک ٹرانسپورٹ رات 2 بجے تک دستیاب ہوتی ہے۔ اس موقع پر کلفٹن پر روایتی میلہ بھی ہوتا ہے۔ جس میں روایتی جھولے موت کا کنواں کھیل تماشے بھی ہوتے ہیں۔ منوڑہ کا ساحل کلفٹن سے زیادہ دور ہے لیکن سی ویو اور کلفٹن نزدیک ہیں کلفٹن سے سی ویو تک ساحل کا نظارہ بہت دلکش ہے ویسے بھی کراچی کے ساحل کا شمار دنیا کے دو یا تین خوبصورت سمندری مقامات میں ہوتا ہے۔ کراچی کا ساحل بہت زیادہ ترقی یافتہ تو نہیں نہ ہی حکومت کی کوئی توجہ ہے۔ پانی اور بنیادی سہولتیں‘ کوئی فائیو اسٹار یا ریزرٹ بھی موجود نہیں ہیں لیکن قدرتی مناظر لاجواب ہیں۔ یہ کشش لوگوں کو یہاں کھینچ لاتی ہے۔کراچی کے ساحل اورتفریحی گاہیں لاکھوں افراد کے روزگار کا وسیلہ بھی ہیں۔ جب تفریحی گاہوں میں رش کم ہوتا تو چھابڑی فروشوں کے گھروں میں نوبت فاقہ کشی تک پہنچ جاتی ہے اورتفریح گاہوں کوجانے والے راستوں کے دکاندار ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں۔ ہاکس بے سینڈزپٹ اور چرنا آئی لینڈ پر پکنک کیلئے جانے والے ماری پور سے منوڑا جانے والے کیماڑی سے کھانے پینے کا سامان خریدتے ہیں اوردل بھر کر شاپنگ کرتے ہیں‘ بھیک بھی دیتے ہیں۔ کینجھر جھیل‘ چلیا بند ٹھٹھہ جانے والوں کے دم سے قومی شاہراہ کے ہوٹل آباد ہیں۔ واپسی میں لوگ مچھلی پھل اور روایتی ربڑی خریدتے ہوئے واپس آتے ہیں۔ عید پر منوڑا اور بابا بھٹ کے جزیرے بھی شہریوں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں منوڑا جانے کیلئے سڑک کا کوئی راستہ نہیں لوگ پہلے کیماڑی جاتے ہیں۔ وہاں سے لانچوں میں بیٹھ کرمنوڑا کے ساحل پر پہنچتے ہیں منوڑا کا قدیم لائٹ ہائوس بھی مشہور ہے۔ بچوں کیلئے سب سے بڑی تفریح گاہ چڑیا گھر ہے لیکن عید کی تعطیلات میں چڑیا گھر میں خواتین کے داخلہ پر پابندی ہوتی ہے اور چونکہ خواتین عید پر چڑیا گھرنہیں جاتیں اس لئے بچے بھی کم جاتے ہیں۔ لیکن عید پر چڑیا گھر میں اس قدر ہجوم ہوتا ہے کہ ممتاز محل اور جانوروں کے اعصاب شل ہو جاتے ہیں اور وہ بیمار پڑ جاتے ہیں۔ عید پر چڑیا گھر میں خصوصی انتظامات کئے جاتے ہیں چڑیا گھر میں خواتین کے داخلے پر پابندی بدتمیزی کے واقعات کی روک تھام کیلئے ہر سال لگائی جاتی ہے۔ سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان اور مصطفی کمال کے دور میں کراچی کے 18 ٹائونز میں ماڈل پارک بنائے گئے تھے یہ پارک بھی اب روبہ زوال ہیں، وہاں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے‘ پانی بجلی نہیں ہے‘ جھولے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں لیکن پھر بھی کچھ کشش باقی ہے۔ لوگ کھلی فضا میں سانس لے کر خوش ہو جاتے ہیں۔ عیدالفطر کے دنوں میں مزار قائد بھی شہریوں کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے جہاں لوگ بیک وقت فاتحہ خوانی اور پکنک منانے جاتے ہیں۔ گزشتہ سال عید پر مزار قائد پر 5 لاکھ افراد وہاں گئے اورمزار قائد پر جانے والوں کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے تھے۔ آبادی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ کراچی میں نجی تفریحی گاہوں اور پلے لینڈ کی تعداد بڑھ گئی پہلے کلفٹن پر ایک پلے لینڈ تھا اب درجنوں چھوٹے بڑے پلے لینڈ کلفٹن سے سپر ہائی وے تک پھیلے ہوئے ہیں۔ بڑے شاپنگ پلازوں میں پلے لینڈ قائم کرنے کے رحجان میں اضافہ ہوا ہے۔ جگہ جگہ منی پلے لینڈ بھی کھل گئے ہیں جہاں زبردست رش ہوتا ہے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ کراچی تفریح میں خود کفیل ہو گیا ہے۔ کراچی کی تفریح گاہوں پر لوگوں کے اژدہام کی ایک وجہ سینما کلچر کا خاتمہ بھی ہے۔ پہلے لوگ فلم دیکھ کر عید مناتے تھے اورہر فلمساز کی کوششیں ہوتی تھی کہ اس کو فلم عید پر ریلیز ہوئی۔ 90ء کی دہائی میں قوم نے ازخود سینما گھروں سے نجات حاصل کر لی، بچے کھچے سینما گھر دو سال قبل توہین رسالت کے خلاف احتجاج کرنے والوں نے جلا ڈالے۔ ایک زمانے میں سب سے بڑی تفریح سینما گھر ہوتے تھے، سینما گھروں کے خاتمہ سے جو خلا پیدا ہوا اس کو تفریح گاہوں نے پُرکیا ہے۔ ضیاء الحق کے دور سے پہلے کراچی کے ساحل سیاحوں کا مسکن تھے۔ یہاں گورے اور میم ہی دکھائی دیتی تھیں۔ بیچ لگژری ہوٹل بھی سیاحوں سے بھرا ہوتا تھا۔ یورپی ممالک سے اتنے سیاح آتے تھے کہ کراچی کے ساحل کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا تھا کہ آپ کسی یورپی ملک میں آ گئے ہیں اس زمانے میں اینگلو انڈین آبادی اور یہودی بھی بڑی تعداد میں آباد تھے۔ یہودی رام سوامی اور اینگلو انڈین صدر ایمپریس مارکیٹ‘ بوہری بازار‘ لکی اسٹار کے علاقوں میں رہتے تھے۔ اینگلوانڈین اور یہودی بھی بڑی تعداد میں ساحل کا رُخ کرتے تھے اور ہاکس بے سینڈزپٹ کے ساحل ان کے دم سے آباد تھے مقامی آبادی کلفٹن سے ہو کر واپس آ جاتی تھی۔ گزشتہ عید پر پکنک منانے والوں کو سانحات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور 50 سے زائد افراد سمندر میں نہاتے ہوئے ڈوب گئے تھے جس کے بعد سمندر میں نہانے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔