قیام پاکستان کے وقت ملک کی آبادی ساڑھے تین کروڑ سے بھی کم تھی جو محتاط اندازوں کے مطابق بیس کروڑ ہو چکی ہے اور پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک بن چکا ہے جبکہ 1947 میں اس کا دنیا میں نمبر 14 واں تھا۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے 19ویں صدی میں یہ بھانپ لیا کہ آبادی میں بے جا اضافہ ایک معاشی سرمایہ نہیں بلکہ بوجھ ہے اور ا یک یا دو ممالک نہیں پورے یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک نے آبادی پر قابو پایا اور سالانہ اضافہ صفر ہے یعنی وہاں سالانہ پیدا ہونے والے اور مرنے والوں کی تعداد برابر ہے۔
وطن عزیز میں 1950ء کی دہائی میں آبادی کی پلاننگ کے حوالے سے منصوبہ شروع کیا گیا مگر زیادہ موثر نتائج برآمد نہ ہو سکے۔ بھٹو دور میں نئے سرے سے ایک کوشش کی گئی مگر ضیاء الحق نے اسلام کے نام پر تمام بہبود آبادی کے مراکز بند کرکے انہیں میڈیکل سنٹرز میں بدل دیا اس کے بعد دو دو مرتبہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومت کوئی خاص توجہ نہ دے سکی اس کے بعد مشرف نے اگرچہ ضیاء الحق کے برعکس روشن خیالی کے نام پر حکومت کی مگر بدقسمتی سے آبادی پر قابو پانے کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی۔ موجودہ حکومت نے اس مسئلہ پر توجہ دی ہے جس میں سب سے اہم پیش رفت علماء کی خدمات حاصل کرنا ہے تاکہ یہ علماء عوام کو اپنے خطبات میں اس بات پہ قائل کریں کہ آبادی پر قابو پانا اسلام میں منع نہیں ہے۔ واضح رہے کہ انڈونیشیا نے آبادی پر قابو پانے کے لیے علماء کی خدمات کامیابی سے حاصل کیں۔ پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی اب بھی دیہات میں رہتی ہے جو کہ زیادہ تر کم علم ہونے کی وجہ سے علماء کی کہی ہوئی بات مستند ترین سمجھتے ہیں۔پاکستان میں پانی کی کمی ماحولیاتی آلودگی جیسے مسائل کی بنیادی وجہ آبادی میں بے پناہ اضافہ ہے اور اب بھی سالانہ 32 سے 35 لاکھ لوگوں کا اضافہ ہو رہا ہے جس کا مطلب ہے ک ہر تین سال بعد ایک کروڑ آبادی کا مزید اضافہ ہو جاتا جو بہت زیادہ خطرناک ہے۔ علماء کرام کے علاوہ تعلیمی نصاب اور میڈیا اپنا بہترین کردار ادا کر سکتا ہے۔ آبادی اور ماحولیات کا چونکہ براہ راست تعلق ہے اس لیے ان موضوعات پر مضامین سکول کی سطح سے شامل ہونے چاہئیں اس کے بعد میڈیا کی باری آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میڈیا کے حوالے سے غیر محفوظ اور خطرناک ملک ہے مگر دوسری طرف پاکستان کا میڈیا اپنے اثر کے لحاظ سے ایک خطرناک حد تک طاقتور سماجی ادارہ ہے اور جس طرح جمہوریت کی بحالی عوام میں شعور، میں بہت آگے چلا گیا ہے مگر بدقسمتی سے آبادی پہ قابو پانے کے حوالے سے صرف حکومتی اشتہارات سے آگے نہیں بڑھا اور آبادی کی پلاننگ کے حوالے سے نشر ہونے والے اشتہارات بھی خاصی دلچسپی اور معلومات کا باعث نہیں بنتے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا اس موضوع پر ڈرامے بنائے ٹاک شوز میں زیر بحث لائے اور سوشل پیغام بھی نشر کرے۔ آبادی کے مسئلہ پر قابو پانے کے لیے پلاننگ کرنے کے لیے اعداد و شمار کا ہونا ضروری ہے اور اسکے لیے تعطل کا شکار مردم شماری 2016ء میں لازم کروائی جائے اور آئندہ بلا تعطل کروائی جائے۔
آبادی پر قابو پانے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کی ضرورت ہے کیونکہ آبادی کی رفتار نے پہلے ہی معاشی، سماجی اور اب ماحولیاتی اعتبار سے جنگی صورت حال پیدا کی ہوئی ہے۔ دیگر ممالک نے جس طرح اس مسئلے پر قابو پایا ہے ہمیں اس تجربے سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ ذہین اپنے تجربے سے سیکھتا ہے مگر عقل مند دوسروں کے تجربے سے سیکھتا ہے.