وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کی بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے ملاقات ہوئی جس میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال ہوا اور پھر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کشمیر کا کوئی ذکر نہیں اس کے باوجود حکومت پاکستان کی جانب سے بار بار اصرار کیا جارہا ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے نریندر مودی سے کشمیر کے معاملے پر بھی تفصیلی بات چیت کی اور مستقبل میں بھی ہونیوالے ہر سطح کے مذاکرات میں مسئلہ کشمیر سرفہرست رہے گا لیکن مشترکہ اعلامیہ میں کشمیر کا ذکر نہ ہونے سے اس بات کا شائبہ ہے کہ نوازشریف نے کشمیر پر بات نہیں کی۔ مشترکہ اعلامیہ کے اجراء کے بعد ہر سطح پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا تو وزیردفاع خواجہ آصف نے کشمیر کے معاملے کو سردمہری کی نظرکرنے کا الزام جنرل پرویز مشرف پر عائد کردیا لیکن اس بیان سے انہوں نے اقرار کرلیا کہ واقعی نواز مودی ملاقات میں کشمیر کا تذکرہ نہیں کیا گیا کیونکہ جنرل مشرف نے اپنے دور میں کشمیر کے مسئلے کو پس پشت ڈال دیا تھا۔
1996ء میں جب میاں نوازشریف برسراقتدار آئے تو انہوں نے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی جسے قبول کرتے ہوئے واجپائی نے پاکستان یاترا کی اور واہگہ بارڈر پر بھارتی ہم منصب کا استقبال کرنے کیلئے نوازشریف موجود تھے لیکن جنرل پرویز مشرف نے واہگہ بارڈر پر استقبال کرنے سے انکار کردیا۔اسکے بعد کارگل کی جنگ شروع ہوگئی اور بھارت کو بری طرح مفلوج کردیا گیا اور کشمیر کیلئے بھارت کی تمام رسد مکمل طور پر کاٹ دی گئی جس پر بھارت نے تمام محاذوں پر جنگ چھیڑنے کی دھمکی دی اور امریکہ جاکر جنگ بندی کا معاہدہ ہوا لیکن اس جنگ بندی کے بعد حکمرانوں اور عسکری قیادت میں اختلافات سامنے آگئے کیونکہ میاں نوازشریف نے کہا کہ جنرل مشر ف نے کارگل کا محاذ انہیں اعتماد میں لئے بغیر کھولا لیکن جنرل مشرف کا اصرار تھا کہ وزیراعظم سے اجازت لیکر کارگل پر جنگ چھیڑی گئی تھی لیکن جنگ بندی پر وزیراعظم نے ہم سے مشورہ نہیں کیا۔
کارگل محاذ کی جنگ بندی کے کچھ ہی عرصے میں جنرل مشرف نے نوازشریف حکومت کا خاتمہ کردیا اور میاں نوازشریف بعد میں معاہدہ کرکے سعودی عرب چلے گئے۔ جنرل مشرف کے دور میں بھارت کے ساتھ معاملات درست طریقے سے چلتے رہے اور جنرل مشرف نے بھارت کا دورہ بھی کیا۔ اب جنرل مشرف نے حالیہ ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ واجپائی کے دورہ پاکستان میں انہیں سیلوٹ سے انکار کرنے کی خبر غلط تھی بلکہ میں نے واہگہ بارڈر پر جانے سے اس لئے انکار کیا تھا کہ وہاں بہت زیادہ لوگ ہونگے اور وردی کے تقدس کی خاطر وہاں جانا مناسب نہیں تھا۔
پاک بھارت تعلقات میں سب سے بنیادی اور دیرینہ تنازعہ مسئلہ کشمیر ہی ہے اور 1948ء میں اقوام متحدہ نے کشمیر میں حق رائے دہی کیلئے قرارداد منظور کی اور بھارت نے 1 سال میں ہی کشمیر میں حق رائے دہی کیلئے ریفرنڈم منعقد کرانے کا وعدہ کیا مگر بھارت نے اپنے وعدے کو وفا نہ کیا جبکہ اقوام متحدہ نے بھی اس قرارداد پر عملدرآمد نہ ہونے پر ہمیشہ مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رکھی۔ اقوام متحدہ کا کردار بہت گھنائونا ہے کیونکہ جس ملک میں مسلمانوں کو آزادی اور حقوق درکار ہوں وہاں صرف دکھاوے کی قراردادیں اور اقدامات ہوتے ہیں لیکن اگر معاملہ اسکے برعکس ہو اور غیر مسلموں کے حقوق دینے ہوں تو راتوں رات ریفرنڈم بھی منعقد کرادیئے جاتے ہیں اور مسلمانوں کو کمزور کرنے کیلئے اتحادی افواج کی لشکر کشی تک کردی جاتی ہے۔
کشمیری قیادت نے بھی نواز مودی ملاقات میں مسئلہ کشمیر کو نظرانداز کرنے کی شدید مذمت کی ہے اور کشمیری حریت رہنما علی گیلانی نے پاکستانی سفارت خانے میں منعقد ہونیوالی عید ملن پارٹی میں بھی شرکت سے یہ کہہ کر انکار کردیا ہے کہ نوازشریف نے بھارتی ہم منصب سے ملاقات میں مسئلہ کشمیر کو نظرانداز کرکے لاکھوں کشمیری شہداء کی قربانیوں کو فراموش کیا ہے۔ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے اور اسکے بغیر پاکستان ادھورا اور نامکمل ہی رہے گا اور اس معاملے پر جرات مندانہ موقف بہت ضروری ہے۔ جنرل مشرف کے دور حکومت کے خاتمے کے بعد انکے وزیر خارجہ خورشید قصوری نے دعوٰی کیا تھا کہ اگر ہماری حکومت چند ماہ مزید قائم رہتی تو ہم مسئلہ کشمیر حل کرچکے ہوتے۔ اسی طرح تمام حکومتیں اپنی مدت کے خاتمے کے بعد یہ اعلان کرتی ہیں کہ اگر چند ماہ مزید ملتے تو ہم مسئلہ کشمیر کے حل کے قریب پہنچ چکے تھے۔
بھارت کی جانب سے بلوچستان اور کراچی میں مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور بھارت کی جانب سے افغانستان میں پاکستان مخالف طالبان کو بھرپور مالی معاونت کے ساتھ ساتھ تربیت اور اسلحہ بھی دیا جارہا ہے اور بھارت پاکستان کو کمزور کرنے کے ہر ہر طریقے سے کاربند ہے جس کے ثبوت اب عالمی میڈیا کے ذریعے بھی سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس سردجنگ کی صورتحال میں بھارتی ہم منصب سے ملاقات کے دوران سخت موقف بہت ضروری تھا اور مسئلہ کشمیر کا ذکر تک نہ آنا حیران کن ہے۔ پوری پاکستانی قوم کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہے تو وزیراعظم کو قومی امنگوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے تھا۔
نریندر مودی کے حکومت سنبھالنے کے بعد سے پاکستان پر مسلسل ہر سطح کی جارحیت جاری ہے اور سینکڑوں مرتبہ سرحدی خلاف ورزیاں اور فائرنگ کی گئی۔ اس گھنائونی صورتحال میں بھارت سے اسی زبان میں بات کرنے کے بجائے ’’سرمایہ دار وزیراعظم‘‘ نے تمام سنگین معاملات کو بالائے طاق رکھ کر صرف اس لئے تعلقات میں بہتری کی جانب قدم بڑھادیا ہے کہ بھارت سے ’’تجارت‘‘ ہوسکے ۔ بہرحال حکومت کو مستقبل میں ہر سطح پر ہونیوالے مذاکرات میں مسئلہ کشمیر کو سرفہرست رکھ کر بات کرنی چاہئے اور بھارت کی جانب سے سرحدی خلاف ورزیوں‘ بلوچستان اور کراچی میں مداخلت‘ پاک چین اقتصادی راہداری کو سبوتاژ کرنے کی سازشوں‘ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی‘ آبی جارحیت سمیت افغانستان میں دہشت گردوں کی تربیت کے معاملات پر لازمی بات کرنی چاہئے اور امریکہ سمیت عالمی طاقتوں کو بھی یہ باور کرانا چاہئے کہ بھارت کی جانب سے ان تمام معاملات کے بعد خطے میں کسی بھی بدامنی کا ذمہ دار بھارت ہی ہوگا۔ اقوام متحدہ میں بھی بھارت کیخلاف ثبوت لے جاکر اس کی مسلسل جارحیت کا خاتمہ کرانا چاہئے اور اس کیلئے کسی ’’تجارت‘‘ کو آڑے نہیں آنا چاہئے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024