پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف چار جولائی کو چین کے دورے پر روانہ ہوئے۔ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد نوازشریف کا کسی بھی ملک کا یہ پہلا دورہ ہے۔ دورہ چین کا انتخاب بڑا اہم ہے انہیں اس دورے کی دعوت چین کے وزیراعظم کی چٹانگ نے اس سال مئی میں پاکستان کے دورے کے دوران دی تھی۔ وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی چین گیا تھا۔ نوازشریف کے اس دورے سے پہلے منصوبہ بندی اور ترقی کے وفاقی وزیر احسن اقبال جوکہ ٹاسک فورس کے چیئرمین بھی ہیں نے چوبیس سے چھبیس جون تک چین کا دورہ کیا تھا۔ وزیراعظم نوازشریف نے اپنے دورے کے دوران چینی ہم منصب سے مذاکرات کرنے کے علاوہ مالیاتی اور کارپوریٹ سیکٹر کے رہنماﺅں سے بھی ملاقاتیں کیں پاکستانی وزیراعظم صنعتی سیکرز اور اقتصادی زونز کا دورہ بھی کیا۔ پاکستان اور چین کے درمیان آزاد تجارت کا معاہدہ موجود ہے اور گذشتہ سال دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم بارہ ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا اور برآمدات میں اڑتالیس فیصد اضافہ ہواتھا۔ پاکستان میں ایک سو بیس چینی کمپنیوں نے سرمایہ کاری کی ہے اور گذشتہ سال یہ سرمایہ کاری دو ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی خیال ہے کہ پاکستان میں گیارہ مئی کو ہونے والے انتخابات کے بعد چینی وزیراعظم پہلے غیرملکی سربراہ تھے جنہوں نے مئی کے آخر میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ میاں محمد نوازشریف نے جو اس وقت ملک کے متوقع وزیراعظم تھے۔ چین کے وزیراعظم لی کی چیانگ سے ماقات میں کہا تھا کہ چین ماضی کی طرح پاکستان میں مزید جوہری توانائی کے پلانٹس لگانے میں مدد کرے تاکہ پاکستان میں توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے چھوٹے بڑے پراجیکٹس لگائے جا سکیں پاکستان وزیراعظم نوازشریف اور چین کے وزیراعظم کے درمیان باضابطہ مذاکرات میں اقتصادی تعاون کے آٹھ منصوبوں پر دستخط ہوئے چین کی کمپنی پاکستان میں بجلی کی پیداوار کے لئے نندی پور پاور پراجیکٹ سے 450 میگاواٹ بجلی حاصل ہو گی۔ پاکستان اور چین کے درمیان طویل مدتی میں تجارتی راہداری معاہدہ بھی طے پایا ہے۔ تجارتی راہداری معاہدے کے تحت اٹھارہ ارب ڈالر کی لاگت سے سرنگیں بنائی جائیں گی۔ دونوں ملکوں کے مابین مواصلات کے شعبے میں تعاون پر زوردیا گیا جس کے تحت اسلام آباد سے خنجراب تک فائبر آپٹک کیبل کا منصوبہ تین سال میں مکمل ہوگا اور اس پر 44 کروڑ ڈالر لاگت آئے گی۔ چین اورپاکستان کے درمیان اقتصادی اور تکنیکی تعاون کے معاہدوں پر بھی دستخط کئے ہیں۔ ان منصوبوں میں پولیو وائرس سے بچاﺅاور گھروں میں استعمال کے لئے شمسی توانائی متعارف کروانے کے منصوبے شامل ہیں۔ چین کے تعاون سے پاکستان میں کئی اقتصادی منصوبوں پر پہلے سے کام ہو رہا ہے۔ ان منصوبوں میں شاہراہ قراقرم کی توسیع و مرمت شامل ہے جبکہ پاکستان نے کچھ ہی عرصہ قبل گوادر کی بندرگاہ کا انتظام بھی چین کے سپردکر دیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ چین اورپاکستان کی دوستی ہمالیہ سے بھی بلند تر ہے۔ پاکستان اور چین نے ہر مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ ماوزے تنگ‘ یو این آئی کے زور میں چین نے جو مثالی ترقی کی منازل طے کیں اہل پاکستان نے ہمیشہ ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اس طرح یحیٰی خان کے دور میں امریکہ کو چین سے دوستانہ تعلقات کے لئے اس وقت کے امریکی صدر نکسن کے نمائندے امریکی وزیر خارجہ ہنجری کسنجر اور پھر رچرڈ نکسن کے دورہ کی راہ ہموار کرنے میں جو مدد پاکستان نے کی اس پر امریکی صدر نے بھی پاکستان کے مثبت کردار کی تعریف کی تھی۔ ستمبر 1965ء کو جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا اور چین نے کھل کر پاکستان کی حمایت کی اسی طرح 71ءمیں بھی چین نے پاکستان کے موقف کی حمایت کی تھی۔ شاہراہ ریشم پاکستان اور چین کی لازوال دوستی کی مثال ہے آج چین ترقی کی جس شاہراہ پر گامزن ہے۔ پاکستان کے حکمران بھی چین کی مدد سے مل کر پاکستان کو ترقی کی اس جانب رواں دواں دیکھنے کے لئے خواہاں ہیں اور پاکستان کے وزیراعظم کا دورہ چین اس سسلے کی کڑی ہے اور اب پاکستان میں چین کے تعاون سے مختلف منصوبوں پر جلد عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔ اس لحاظ سے وزیراعظم پاکستان کا دورہ چین اہمیت کا حامل ہے اور آئندہ آنے والے ماہ وسال میں اگلے مثبت اثرات سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024