کسی بھی معاشرے کی ترقی کا ضامن اسکا نظام تعلیم ہوتا ہے۔ اگر نظام تعلیم ہی بہتر نہیں ہو گا تو کوئی بھی معاشرہ ترقی کے بنیادی اصولوں سے محروم رہ جائیگا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نظام تعلیم میں بہتری کی باتیں اور بڑے بڑے دعوے تو ضرور کرتے ہیں لیکن اس پر عملدرآمد کرتے ہوئے نجانے کیوں ہمارے ہاتھ کانپ اٹھتے ہیں۔
ہماری حکومت ہر سال تعلیم کے بہترین حصول کیلئے بجٹ مخصوص کرتی ہے لیکن شاید ہی اس بجٹ کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ ہم جب بھی پاکستان میںمعیاری نظام تعلیم کی بات کرتے ہیں تو ہم اردو میڈیم یا انگلش میڈیم پر آکر اٹک جاتے ہیں۔ ہم اس بات کے مخالف نہیں ہیں کہ اردو ہماری قومی زبان ہے اور ہمیں اسکی ترقی و ترویج کے سلسلے میں اقدامات کرنے چاہئے لیکن جب ہم جدت اور ملکی ترقی کی بات کرتے ہیں تو یہ امر قابل تقلید ہے کہ ہم نظام تعلیم میں مثبت تبدیلیاں لے کر آئیں۔
اس سلسلے میں وزیراعلیٰ پنجاب کے اقدامات کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ خاص طور پر سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے بچے اور بچیوں کو اعلیٰ و معیاری تعلیم دینے اور اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے سلسلہ میں نئے اساتذہ کی بھرتی کا سلسلہ بھی قابل تحسین ہے۔ تعلیمی معیار کو بہتر سے بہترین بنانے کیلئے انہوں نے پنجاب بھر میں انگریزی کی تعلیم کو لازمی قرار دے دیا کیونکہ وہ بھی جانتے ہیں کہ جب تک ہم اپنی کمزوریوں اور خامیوں کو ختم نہیں کرینگے پاکستانی نظام تعلیم کا معیار بہتر نہیں ہو سکتا۔
ہم کسی بھی سرکاری سکول میں چلے جائیں وہاں بچے انگریزی کا ایک جملہ بھی ڈھنگ سے نہیں بول پاتے بلکہ سرکاری کالجوں میں انگریزی میں ایم اے کرنیوالوں کا بھی یہی حال ہے۔ ایسے میں آئندہ سال تعلیمی سیشن 2014ءسے جماعت پنجم‘ ہشتم‘ نہم اور دہم کے تمام امتحانات بالترتیب پنجاب ایگزامنیشن اور ثانوی تعلیمی بورڈ کے تحت لئے جانا اور امیدواروں کیلئے اردو اور انگریزی میڈیم کی چوائس کو ختم کرکے صرف انگریزی زبان میں امتحانات لئے جانے کا اقدام بلاشبہ خوش آئند ہے۔
سرکاری سکولوں میں انگلش میڈیم کو رائج کرنا اس لئے بھی سود مند ہے کیونکہ بچوں اور بچیوں میں خود اعتمادی بڑھے اور انگلش میڈیم اور اردو میڈیم کے باعث جو تعلیمی اور معاشرتی امتیاز پیدا ہو چکا اس کا خاتمہ کرنے میں آسانی ہو لیکن جیسے ہی اسکی خبر ہمارے اردو میڈیم کے جیالوں کو ہوئی انہیں لگا یہ تو اردو زبان کو ہی ختم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے اور اسے پاکستان کی تاریخ سے منسلک کر دیا کہ جب ”انگریز نے ایسٹ انڈیا تاجر کمپنی کے زیر اثر مسلمانوں کے سرکاری نظام تعلیم کو میکالے نظام تعلیم میں ڈھال دیا تو سر سید احمد خان‘ نواب وقار الملک اور محسن الملک کی قیادت میں ”اردو بچا¶ تحریک“ کا آغاز کیا“۔
ہم اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ ہندو¶ں نے اردو زبان کو ختم کرنے کی سازش کی اور سر سید احمد خان اور انکے ساتھیوں نے اسکو بچانے کی مہم چلائی لیکن جہاں بات سرکاری نظام تعلیم کی ہو رہی تو ذرا تاریخ کے پنوں میں ایک بار جھانک لیں کہ سر سید احمد خان نے ہی مسلمانوں کو انگریزی زبان سیکھنے کی ترغیب دی تھی تاکہ وہ ہندو¶ں کی سازشوں کا مقابلہ کر سکیں اورسرکاری سطح پر اپنی جگہ بنا سکیں لیکن یہ کہنا کہ علی گڑھ اور دیوبند کے زیراثر بنائے گئے تعلیمی ادارے ہی مستند ہیں اور انگریزوں کے بنائے گئے ادارے ایف سی‘ جی سی اور ایچی سن انٹر نیشنلزم کی بنیاد ہیں اور اسکی آڑ میں غیر ملکی نظام تعلیم متعارف کروایا جا رہا ہے تو یہ غلط فہمی دور کرلی جائے کیونکہ جی سی‘ ایف سی اور ایچی سن بلاشبہ انگریزی تعلیم دے رہے ہیں اور ایک عام شخص ان اداروں میں اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلوا سکتا لیکن ان اداروں میں پاکستانی تاریخ ہی پڑھائی جا رہی ہے اسکا صرف متن انگریزی زبان میں ہے۔
ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ آج ہم جن کی وجہ سے اس آزاد ملک میں سانس لے رہے ہیں، ہمارے رہبر پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے سرکاری سطح پر انگریزی زبان میں ہی آزادی کی جنگ لڑی، اردو کو بلاشبہ انہوں نے قومی زبان قرار دیا لیکن وکالت کی ڈگری انہوں نے لندن سے ہی حاصل کی تھی اورڈاکٹر علامہ محمد اقبال بھی تو جرمنی سے ہی پڑھ کر آئے تھے کیا وہاں انہوں نے اردو زبان میں تعلیم حاصل کی؟
اگر جی سی‘ ایف سی اور ایچی سن پر بےجا تنقید کرنیوالے بتا دیں کہ ہمارے مو¿ثر قومی سیاستدان،بڑے رائٹرز، بیوروکریٹس، ڈپلومیٹس اور اساتذہ کیا سرکاری سکولوں سے پڑھ کر آئے ہیں؟ نہیں بلکہ امیر حیدر خان ہوتی‘ سردار ایاز صدیق‘ منصور علی عباسی‘ اسد قیصر‘ اعتزاز احسن‘ اکبر بگٹی‘ چودھری نثار علی خان‘ ظفر اللہ خان جمالی‘ اسفند ولی خان‘ عمران خان‘ فاروق لغاری‘ ایچی سن سے اپنی ڈگریاں لے کر آئے ہیں اور ہمارے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف‘ یوسف رضا گیلانی‘ میر ظفر اللہ خان جمالی‘ خورشید محمود قصوری‘ اعتزاز احسن‘ ڈاکٹر ثمر مبارک مند‘ ڈاکٹر عبدالسلام‘ ڈاکٹر علامہ اقبال‘ فیض احمد فیض‘ پطرس بخاری‘ قدرت اللہ شہاب نے جی سی سے اور یوسف رضا گیلانی‘ محمد میاں سومرو‘ پرویز مشرف‘ شاہ محمود قریشی‘ چودھری شجاعت حسین‘ چودھری پرویز الٰہی‘ فاروق لغاری‘ حفیظ اختر رندھاوا‘ سر محمد پرویز انور نے ایف سی سے تعلیم حاصل کی تو کیا ان سب نے پاکستان سے غداری کی؟ہمارے بڑے بڑے انجینئر‘ وکلائ‘ استاد یہ سب سرکاری اداروں سے پڑھ کر نہیں آئے بلکہ انہوں نے بھی انگریزی زبان میں ہی تعلیم حاصل کی ہے اور آج ترقی کے جس زینے پر قدم رکھ چکے ہیں وہ انکی تعلیمی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پنجاب میں انگریزی زبان کو لازمی قرار دیا جا رہا ہے تو ملکی فلاح وترقی اور بچوں کے اچھے مستقبل کی خاطر ہی دیا جا رہا ہے۔
اگر کسی کوایسا لگتا ہے کہ ایچی سن‘ جی سی اور ایف سی جیسے اداروں میں صرف امراءکے بچوں کو پڑھنے کا حق ہے اور غریبوں کے بچے تو لاوارث ہیں وہ ا ن اداروں میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ عام بچہ تو انکی فیس ہی افورڈ نہیں کر سکتا تو جناب اسی خلاءکو پر کرنے کی غرض سے سرکاری سطح پر ایچی سن‘ جی سی اور ایف سی جیسی معیاری تعلیم رائج کی جارہی ہے جس سے غریب اور عام لوگوں کے بچے مستفید ہی نہیں ہو نگے بلکہ ان میں خود اعتمادی بھی آئیگی اور مقامی کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی ملازمتوں کے مواقع بڑھیں گے۔
ہمیں جدید تعلیمی نظام سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور اگر اسکے حصول کیلئے ہم برطانیہ ،ترکی جیسے ممالک اوریونیسکوویونیسف جیسی تنظیموں سے فنڈز لے رہے ہیں تو اس میںفائدہ بھی تو ہمارا ہی ہے ۔فرق صرف سوچ کا ہے۔ اگر مثبت پہلو¶ں کو مدنظر رکھا جائے تو غیر ملکی امداد اور این جی اوز ہمارے سول اور فوجی اداروں کو انٹر نیشنلزم کی تربیت گاہ نہیں بنا رہے بلکہ ہمیں دنیا کے سامنے کھڑے ہونے جدید دور کے تقاضے پورے کرنے اور عالمی برادری کے کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
اردو زبان کو ہمیشہ مرکزی حیثیت ہی حاصل رہے گی لیکن انگریز ی اور دیگر زبانوں پر دسترس حاصل کرنا ہر بچے کا حق ہے اور ہمیں یہ حق ان سے چھیننا نہیں چاہئے۔ ہمیں اپنے بچوں کیلئے تعلیم کے حصول کو ہر صورت ممکن اور آسان بنانا ہے۔ چنانچہ تنقید کرنے کی بجائے اس اقدام کے مثبت پہلو¶ں کو لازمی مدنظر رکھیں تاکہ جدید نظام تعلیم سے اپنے بچوں متعارف کروائیں کیونکہ یہی ہمارا مستقبل ہیں جوآگے چل کر ملکی ترقی کی راہیں ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کرینگے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024