سرورمنیر رائ
برطانیہ میں قیام کے دوران اس حوالے سے جو حقائق میرے سامنے آئے ہیں وہ انتہائی اندوہناک اور پریشان کن ہیں۔برطانوی بارڈر ایجنسی کے مطابق پاکستانی طالب علموں کو دنیا کے ان چار ممالک کے گروپ میں شامل کر لیا گیا ہے جو "ہائی رسک" اور "بوگس طالب علم" کے زمرے میں آتے ہیں۔ برطانوی امیگریشن نے پاکستانی طالب علموں کے ویزے کو "مشکوک لسٹ" میں ڈال دیا ہے اب نئے طالب علموں کو داخلے کی اجازت دینے سے پہلے کڑی پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔ ایک رپورٹ کےمطابق اس وقت برطانیہ میںپاکستان ، بھارت، بنگلہ دیش اور چین کے پچاس ہزار سے زائد طالب علم غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔
سٹوڈنٹ ویزہ پالیسی کےمطابق ابتداءمیں طالب علموں کو فارغ اوقات میں کام کرنے کی اجازت تھی کئی طالب علم پچا س گھنٹہ فی ہفتہ تک کام کر کے خاصی رقم کما لیتے تھے، حکومت برطانیہ نے اسے ریگولیٹ کرکے فی ہفتہ 20گھنٹے کی اجازت دی اور اب اس رعایت کو 10گھنٹے تک محدود کر دیا ہے۔جو طالب علم ایک ہفتے میں 10گھنٹے سے زائد کام کرے گا اس کا ویزا کینسل کر دیا جائےگا اور کام پر رکھنے والے کو 10 ہزار پونڈز تک جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ جلد ہی یہ اعلان کیا جا رہا ہے کہ آئیندہ کسی غیر ملکی طالب علم کو برطانیہ میں ایک گھنٹہ بھی کام کرنے کی اجازت نہ ہو گئی۔
برطانیہ کیلئے طالب علموں کے ویزوں کا اجراءاور وہاں کے کالجز اور یونیورسٹیوں میں پاکستانی طالب علموں کے داخلے کا عمل ایک بین الاقومی سکینڈل کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ یورپی یونین کے ایک اصلاحی پروگرام کے تحت یہ طے کیا گیا تھا کہ یورپی یونین کے ممالک میں تعلیم کی غرض سے آنےوالے نوجوانوں کو ابتداءمیں انگریزی کا خصوصی کورس کرایا جائے اسکے ساتھ ساتھ ایسے افراد جو لوگ لیبر کلاس میںکام کرتے ہیں مثلاً مزدور، ڈرائیور، سیلز مین اور صفائی کا عملہ انکی انگریزی اور لہجے کو بہتر بنایا جائے تا کہ انہیں کام کی نوعیت سمجھنے میں آسانی ہو ا۔ اس اچھے مقصد کو برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں اور کچھ برطانوی افراد نے باہم ملکر ایک کاروبار کا درجہ دے دیا۔ وجہ اسکی یہ تھی کہ یورپی یونین نے اپنے مشترکہ فنڈ سے ایک تناسب کے اعتبار سے یورپی یونین کے ممالک کو ایک مخصوص رقم دی کہ وہ اس پراجیکٹ کو کامیاب بنانے کیلئے خصوصی سکولوں کا اہتمام کریں۔
برطانیہ میں ان لوگوں نے مل کر کئی سکول اور کالج اس کام کیلئے رجسٹرڈ کروائے اور پھر پاکستان سے نوجوانوں کو ان اداروں میں داخلے دے کر برطانیہ بلوانے کا اہتمام کیا۔ پاکستان میں ان اداروں کے مقامی ایجنٹوں نے تعلیم کے نام پر ایک طرف تو پاکستان میں کاروباری دفاتر کھول لیے،اخباری اشتہاروں کی ذریعے میٹرک اور ایف اے پاس نوجوانوں سے لاکھوں روپے داخلہ فیس، ویزا فیس اور جہاز کے کرایوں کے نام پر حاصل کیے اور دوسری طرف"برطانوی ٹولے" نے یورپی یونین سے رجسٹرڈ طالب علموں کے نام پر گرانٹ ہڑپ کر لی۔ یہ نوجوان جب برطانیہ پہنچے تو ان اداروں نے ان سے اگلے سمسٹر کیلئے بھاری فیس کا تقاضہ کیا اور یوں ان طالب علوں نے برطانیہ میں دن رات نوکری کر کے فیس ادا کرنی شروع کی۔ ان میں سے اکثر اداروں نے جب اپنے مالی ہدف حاصل کر لیے تو اچانک انہیں بند کر دیا۔ایک رپورٹ کے مطابق اس مقصد کیلئے قائم کیے گئے تین ہزار سکولوں میں سے 2800سکول بند ہو چکے ہیں۔اب یہ طالب علم تعلیم چھوڑ کر کمائی میں لگ گئے۔ برطانیہ میں ہومین ریورس کے ادارے کے سروے سے جب یہ پتہ چلا کہ ان اداروں کے طالب علموں کی اکثریت تعلیم کی بجائے نوکریاں کر رہی ہے تو انہوں نے اپنے قوانین سخت کرنے شروع کیے اور نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ لندن، مانچسٹر، برمنگھم، لیڈز ، لسٹر اور سکاٹ لینڈ شہروں کے پارکوں اور مارکیٹس میںیہ پاکستانی نوجوان طالب علم آوارہ گردی کرتے نظر آنے لگے یہ نوجوان مساجد، مندر اور گوردواروں میں خیراتی کھانا کھانے لگے۔اس طرح سٹریٹ کرائمز میں اضافہ رجسٹرڈ ہوا۔ اس پس منظر میں برطانوی حکومت نے سٹوڈنٹ ویزا کو "ہائی رسک"میں ڈال کر قوانین سخت کرنا شروع کر دئیے اور نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ نہ صرف یہ کہ دوران تعلیم فی ہفتہ کام کرنے کی حد 10گھنٹے کر دی گئی ہے بلکہ 21 اپریل 2012 کے بعد تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے برطانیہ آنے والے نوجوانوں کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد دوسال تک کام کرنے اور برطانیہ میں رہنے کی جو اجازت دی جاتی تھی اسے بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ اس طرح 21 اپریل 2012 کے بعد برطانیہ جانےوالے طالب علم ڈگری حاصل کرنے کے بعد برطانیہ میں قیام نہ کر سکیں گے۔ برطانیہ میں تو جو کچھ پاکستانی طالب علموں کے ساتھ ہو رہا ہے یہ تو ایک پریشان کن کہانی ہے ہی لیکن پاکستان میں تعلیم کے نام پر جو گھناﺅنا کاروبار ہو رہا ہے اس میں ملوث افراد پر حکومت ہاتھ کیوں نہیں ڈالتی، تمام صوبوں اور مرکز میں ارب ہا روپے تعلیم کی وزارت، ریگولٹری اٹھارٹیز اور وزارت داخلہ کے ذیلی ادارے ایف آئی اے اور کرائمز کنٹرول کے دوسرے کئی ادارے کام کر رہے ہیں لیکن پاکستان کی نوجوان نسل کے مستقبل اور انکے والدین کے مالی وسائل پر ڈاکہ ڈالنے والوں پر کوئی گرفت کرنےوالا نہیں۔بیرون ملک بھیجے جانےوالے نوجوانوں کی جعلی ڈگریاں بنائی جاتی ہیں اس سے چار ہزار پونڈ فی کس حاصل کیا جاتا ہے اور جب یہ بچے سہانے خواب لے کر برطانیہ اترتے ہیں تو کچھ ہی عرصے بعد انکے خواب ٹوٹنے لگتے ہیں اور وہ جرائم پیشہ افراد کی فہرست میں شامل ہو جاتے ہیں۔ یہ بات کس قد ر افسوسناک ہے کہ پاکستان کی نوجوان نسل خواہ پاکستان میں ہو یا غیر ملک میں اسکی اکثریت اچھا شہری بننے کی بجائے مجرم بننے کی طرف گامزن ہے۔ یہ ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہے!
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024