سکرین زنجیر میں قید ’’ڈیجیٹل نشہ‘‘(2)
دنیا کی معتبر جامعہ Harvard University کی تحقیق سے اخذ کردہ نتیجہ بتاتا ہے کہ جب کوئی شخص سوشل نیٹ ورکنگ کر تا ہے تو اس کے دماغ کا اہم حصہ Nucleus Accumbens متحرک ہو جا تا ہے ، جوعموماََخطرناک نشہ کرتے وقت فعال ہو تا ہے۔ایڈم اولٹر کی کتاب ناقابل مزاحمت Irresistible اِس موضوع کی بہت دلچسپ کتاب ہے ،جس میں بتا یا جا تا ہے کہ انسانوں کی’’ بیالوجیکل پروگرامنگ‘‘ ہو رہی ہے اور نشے کے اعصابی راستے کے ذریعے اُس ’’فرضی قربت‘‘ کا احساس پیدا کیا جاتاہے ،جو ہمیں غیرحقیقی خوشی دے۔ہارورڈ یونیورسٹی کی پروفیسر شوشنا زبوف کی کتاب The Age of Surveillance Capitalism اِسی سلسلہ کی وہ شاہکار کتاب ہے ،جسے سابق امریکی صدر بارک اوباما اپنی پسندیدہ کتابوں میں شامل کر چکے ہیںاور فنانشل ٹائمز اِس کتا ب کو اصلی سوچ اور تحقیق کا ’’ماسٹر ک‘‘ قرار دی چکی ہے۔اِس کتاب میں مصنفہ بتاتی ہیں کہ نیا ڈیجیٹل سرمایہ دارانہ نظام خاموشی سے اِنسانی فطرت کا استحصال کر رہا ہے۔میرے زیر مطالعہ رہنے والی تحقیقی کتابوں کی لمبی بحث میں جائے بغیرمجھ مسافر کا آپ صارفین سے سادہ سا سوال بس اتنا ہے کہ اگر ہم سب فیس بک،یوٹیوب، ٹیوٹر،انسٹاگرام اور ٹک ٹاک کو ایک روپیہ بھی نہیں دیتے تو یہ سب کمپنیاں کھربوں روپے کی مالک کیسے بن گئی ہیں…؟اسکرین سے بنے اپنے پندرہ سالہ تعلق اور تجربے کی بنیاد پر وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اِس کی ’’رنگینیاں‘‘ ہمارے اندر بستی اُدسیاں نہیں مٹا سکتیں۔ہندوستان کے عالمی شہرت یافتہ اداکار ’’سوشانت سنگھ‘‘کوہی لے لیجئے۔سوشانت کے انسٹاگرام پرچاہنے والوں کی تعداد ایک کروڑ ۲۳ لاکھ تھی،یہ بہت بااثر،کامیاب اور پُرسکون نظر آتا تھا مگرسب ہوتے ہوئے 14 جون 2020ء کواس کی خود کشی نے دنیا بھر کی ’’ڈیجیٹل نسل ‘‘کی سلامتی کا سوال اُبھارا ہے …اِ س مایوس موت نے دنیا کو بتایا کہ گلیمر،روشنیوں اور ستاروں سے جگ مگاتی دِنیا ہم سے زیادہ ویران اور تنہا ہے۔جیسے اب شہداور دیسی گھی اصلی نہیں ملتا ویسے ہی دِلوں پر راج کرنے والے بھی اُس’’اصلی چاہت‘‘ سے دورہیں،جو سکونِ قلب دیتی ہو:- ؎ عجیب رنگ میں گزری ہے زندگی اپنی
دِلوں پر راج کیا،پھر بھی پیار کوترسے
زندگی کی رفتار کا پہیہ ماضی کی طرف نہیں گمایا جا سکتا تاہم ہمیں یہ سوچنا ہے کہ آج ہماری ہتھیلیوں میں موجود ’’ڈیوائسیز‘‘اگر بستی لائبریریز اور بامقصد محفلیں کھاگئیں ہیں تو اِن کا اگلا نشانہ کیا ہو سکتا ہے …دُکھ تو یہ ہے کہ اسکرین کے شکنجے میںچھوٹی عمر کی معصوم روحیں بڑی بُری طرح پھنس چکی ہیں…اسکرین نے انسانی شخصیت کی بیٹری اتنی کمزورکردی ہے کہ ہم عظیم رشتوں،رنگوں،رویوںاور راستوں کو نظر انداز کرنے لگے ہیں۔ہم اپنی زندگی کے کھیل کی ’’بال ،بال‘‘ کی کہانی اپنے صارفین تک پہنچا کر اپنے آپ کو وی آئی پی سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں۔بقول شاعر :-
؎ سارا شہر شناسائی کا دعوی دار تو ہے لیکن
کون ہمارا اپنا ہے وقت ملا تو سوچیں گے
میں اُس اُجڑے دیا ر کا رہنے والا ہوں،جہاںترجیعات کی ’’کرنسی‘‘ بدل چکی ہے…اپنے موبائلوں میں نئی ایپس انسٹال کر کے اب ہمارے قدم زمین پر نہیں لگ رہے ،جیسے ہمیں خلاؤں کی ’’ڈیجیٹل سٹیزن شپ‘‘ مل گئی ہو… چارجر کی عدم دستیابی میں سامنے آنے والی وارننگ Battery Low ہمارے چہرے پر عجیب سی ’’یتیمی‘‘ کے احساسات لے آتی ہے۔ماضی کے میرے محبوب3310 موبائیل پر سانپ والی گیم توگئی،اب ہمارے بچے ’’پب جی اور بلیوویو‘‘نامی نشہ آور گیمز کے نرغے میں ہیں۔ہم وہ آخری نسل تھے جن کی تفریحی نانی اور دادی کی کہانیاں تھیں…جنہیں سُنتے سُنتے ہم سو جاتے تھے مگر آج ستم یہ ہے کہ ’’ماڈرن مائیں‘‘ اپنے جگر گوشوں کی نیند کے لیے’’وائی فائی‘‘ کا بٹن بند کر نے پر مجبور ہیں۔ علامہ اقبال کے مشہور ِ زمانہ شعر کواگر معمولی سی عصری تبدیلی کے ساتھ پیش کرو ں تو یوں ہو گا:-
؎ اے طاہر لاہوتی اُس ’’ڈِسک‘‘ سے کتاب اچھی
جس’’ ڈِسک‘‘ سے آتی ہو پڑھائی میں کوتا ئی
مزید غم کی بات یہ ہے کہ اِس سوشل میڈیا نے ہمیں Unrealistic Glamour (غیر حقیقی سحر) کے ایسے سمندر میںدھکیل دیا ہے کہ اب ہم اپنے عظیم ترین تخلیقاروں کو چھوڑ کر ٹک ٹاکروں ، یوٹیوبروں اور فیس بکیوں کی پیروی کرنے لگے ہیں۔ہر طرف TRP اور Views کے حصول کا’’ٹوپی ڈرامہ‘‘ چل رہا ہے۔سوشل میڈ یا کی آمد سے پہلے دانشور بننا ایک خاصا مشکل عمل تھا مگر اب بغیر کسی محنت کے دانش وار بننے کا رجحان زور پکڑگیاہے ۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے ،آپ بنا کچھ کیے راتوں رات مشہور شخصیت Celebrity بن سکتے ہیں۔بقول نواب مصطفی خان:-
؎ ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا
’’سوشل میڈ یا انفلوئنسرز‘‘ خواہشوں کو خبروں میں بدلنے کا ’’بیوپار‘‘ کر رہے ہیں۔آج عالم یہ ہے کہ مشہور ٹک ٹاکروں کی گھر میں کوئی نہیں سُنتا تو دوسری طرف عظیم تخلیقاروں کی اب ٹک ٹاک پر کوئی نہیں سُنتا۔جیسے میدانِ سیاست میں اصل اور Genuine لوگوں کا حق مارا جا رہا ہے …ویسے ہی سوشل میڈ یا نے اکثر فضول لوگوں کی ’’فین فالوئنگ‘‘ بنا دِی ہے( جاری ہے)