تہذیب کی منظر کاری
لباس ہمیشہ سے جسم کی ضرورت رہا ہے، اگر گوئی سمجھے تو!
لباس جسم کی ڈھال ہے، اگر کوئی جانے تو! لباس ہی شرافت کی کسوٹی ہے، اگر کوئی مانے تو!
لیجے جناب ہم نے سمجھ بھی لیا، جان بھی لیا مان بھی لیا مگر اس نو عمر و نو آموز طفل کی طفل شعوری کا کیا جو اپنی آموزش گاہ کو ایک آنکھ والے دجال کی عنایتِ خاص ٹیلی وژن سے ٹیلی کرتا ہے اور جس کا وژن ٹیلی وژن پر جلوہ نما ہونے والے تھرکتے پھڑکتے اجسام سے خیرہ چشم و چکا چوند ہو چکا ہے۔ وہ لباس کو کیا سمجھے گا؟وہ لباس کو کیا سمجھے گا! بچپن میں کچھ بھی سمجھ لے مگر اس ننگ و آر کی دنیا سے بچے ہوئے بچے کے خیالات جواں سالی میں اس سالی ننگ اسلاف، ننگ آفرینش ننگ دھڑنگ انسان نما مخلوق کی بابت سربستہ نہیں بلکہ سربسر ہوں گے…!سرکار، وہ سچے اور کھرے وار کر کے اس مردہ و پڑمردہ تہذیبِ کے تارِ عنکبوت کو تار تار کرنے کی ذری ہی سہی مگر کوشش ضرور کرے گا۔ میری غزل کا مطع دیکھیے،
روح کی آڑ میں اجسام خریدے جائیں
کیسے اِس نام پہ اَصنام خریدے جائیں
کیا کوئی اْس کے اس سوال کا جواب دے پائے گاجب کسی کو معاف کرنا اس سے بعیدہو گا اگر جواب ہوا بھی تو مردہ الفاظ کی جگالی ہو گی یا محض گالی۔ دونوں صورت میں سرد مہری جنم لے گی۔اسے آپ مستقبل کا منظر نامہ سمجھیے یا کروٹیں بدلتی ہوئی تہذیب کی منظر کاری۔ یہی حال سردیوں کا ہے۔ ان کے وار سے بھلا کون بچ سکتا ہے۔ اس لیے سردیوں کے آتے ہی عوام بالعموم، خواص بالخصوص اور اک خاص طبقہ سے از راہِ تفنن اور از روئے ایمان خاص الخواص سے تعبیر کروں گا بالاخص، بالترتیب نہایت درجے کا، اوسطً اور واجبی واجبی لباس زیبِ تن کرتے ہیں۔ یہ ہے حال انسان کا، کمال موسموں کا اور جمال سردیوں کا! درجہِ حرارت جب نقطہِ انجماد سے پست ہو جائے تو انسان کے جسم کا درجہِ حرارت متلاطم ہو کر حرات کا متلاشی بن جاتا ہے۔ ایسا نہ ہو پائے تو انسان رہتا ہے نہ جسم۔ پھر کیا کہیں اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ کاٹن کا ملبوسہ بے اعتنائی کے دار پر آویزاں کر دیا جاتا ہے اور گرم ملبوس سے دامن بھر لیا جاتا ہے۔ یہ سالانہ گردش کا بظاہر سال خوردہ مگر وہ سنہری حصہ ہے جس میں اجسام کی نہیں بلکہ ملبوسات کی نمائش ہوتی ہے۔ اور یہی اس موسم کی اصل خوب صورتی ہے۔
سردیوں میں جب گھر گھرستی اور گوشہ نشینی بڑھ جاتی ہے تو ایسے میں کوء ماضی کا بھولا ہوا یا بھولا ہوا ماضی دل کی بستی کی پستی کی سمت بڑھتا چلا آتا ہے۔ اس بھولے بسرے کی یاد آتے ہی انسان دیوانہ وار ماضی کے گوشواروں کی چھان پھٹک میں پہلے محوِ خرام اور بعد میں بے آرام۔ نردوش ہو کر بھی محوِ غمِ دوش۔ استفسارات، سوالات اور نجانے کیا کیا۔ مگر جواب کچھ بھی نہیں! اگر گیا تو کیوں گیا! جدا ہوا تو کیوں ہوا! جس طرح انسان گرمی و سردی کی شدت نہیں سہہ سکتا اسی طرح رشتے بھی زیادہ گرمی برداشت کرتے ہیں نہ ہی زیادہ سردی، بس اوسطً درجہِ حرارت میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں، رشتوں کی بھی کم یا زیادہ مگر زندگی ہوتی ہے یعنی حال انسان کا سا ہے ، ہاتھوں میں توقعات کا کاسہ ہے جو چوڑائی میں اچھا خاصہ ہے اور اس کو لبالب کرنا ان کاخاصہ ہے۔جیسے آدھا گھڑا چھلکتا ضرور ہیاسی طرح توقعات کا کشلول آدھا چھوڑ دیا جائے تو صورتِ احوال متردد و پراگندہ حال بن جاتی ہے تب کچھ نہیں بن سکتا۔
اس لیے توقعات کا کٹورا اگر خالی ہو تو خیلی خوب۔ بھرنے کی ٹھان ہی لی تو جان جائیے کہ جان جائے مگر مان نہ جائے! وگرنہ رشتہ موت کا فرشتہ بن جائے گاجس طرح انسان موسم کی سختی برداشت نہیں کر سکتا بالکل اسی طرح رشتہ رویے کی سردی۔ یہاں رویہ سرد وہاں رشتہ فوت۔ پھر کیا لاش ہی رہ جاتی ہے بس! لاش کے ساتھ رہنے سے بہتر ہے رشتہ بچا لیجیے! انسانی رشتہ سردی سے تو خاص طور پر بچایا جائے بصورتِ دیگر جان سے پیارے رشتے بھی جان دے کر بے جان ہو جاتے ہیں۔ انسان انسان ہے رشتہ رشتہ ہے مگر یہ کہ انسان جب مرتا ہے تو جسم ٹھنڈا ہو جاتا ہے، رشتہ مر جائے تو رویہ سرد پڑ جاتا ہے۔ سرد موسم بادِ سموم بھی ہے اور بادِ صبا بھی…! آپ کے اپنے آپ کے پہلو میں ہوں تو رحمت۔ فراق دیدہ و فراق زدہ کے لیے زحمت!
سرد موسم دلکشی، سرد رویہ تشنگی
سرد موسم حسین خواب، سرد رویہ سخت عذاب
سرد موسم پھول کلی، سرد رویہ کْلی طور پر بے کلی۔ سرد موسم سے لطف اٹھانے کے خواہاں ہیں تو سر رویے کو سرد خانے میں منتقل کر دیجئے اور رشتوں کو مندمل کر لیجئے! اگر ایسا نہ ہوا تو اختر حسین جعفری مرحوم کہتے ہوئے دکھاء دیں گے
تجھ کو کس پھول کا کفن ہم دیں
تو جدا ایسے موسموں میں ہوا
جب درختوں کے ہاتھ خالی ہیں