انعام ہی انعام

ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی کم شرح کا ذکر اکثر وبیشتر ہوتا رہتا ہے اس کی اہمیت کو معاشی ماہرین تو اچھی طرح سے جانتے ہیں مگر عام سطح پر اس کو سمجھا نہیں گیا ہے ،اس معیار پر پاکستان ابھی بہت پیچھے ہے ،جب بھی اس کی وجوہ کا تجزیہ کیا جائے گا تو اداروں پر نکتہ چینی کی جاتی ہے اور ان کے ناکام ہونے یا نااہل ہونے کا تذکر ہو نے لگتا ہے،حقیقت یہ ہے کہ سب کی ناکامیابی ہے ،ملک کی معیشت کا جو بھی حجم ہے اس کو سامنے رکھ کر جب جمع ہونے والے ریونیو کے عدد کو پرکھا جائے تو یہ تناسب کم وبیش10فی صد کہا جا سکتا ہے،انڈیا میں12اور نیپال میں 19فی صد کے مساوی ہے ،دنیا کے بہت سے ملک ہیں جن کا تناسب20فی صد یا اس سے بھی کہیں ذیادہ ہے ،ریونیو جمع کرنے والے اداروں کی جانب انگلیاں اٹھانا زرا آسان سا معاملہ ہے اس لئے عام طور پرہر طرح کے راہنماوں کے اظہار خیال میں ان کو بے نقط سنائی جاتی ہیں ،ان اداروں کے افسران ایسے مواقع پر ہکا بکا سن رہے ہوتے ہیں وہ ضرور کہنا چاہتے ہو ں گے کہ ’’کیا صرف ہم ْقصور وار آپ جناب پر کوئی ذمہ داری نہیں‘‘،خیر بات آگے بڑھاتے ہیں ،2000ء کے بعد سے اس ایشو پر بہت ذیادہ توجہ جاتی رہی ہیں،عالمی بینک سے مدد لی گئی ،اصلاحات کے نام پر قرضے لئے گئے ،آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام ہوتے رہے جن کی بیشتر تعداد ناکام رہی ،دراصل ہر پروگرام اس ایک ایشو کو حل کرنے کی کوشش تھی، باقی سب اس کے بطن سے نکلنے والے مسائل ہیں،ادارے کی بات کرنے سے پہلے سیاسی حکومتوں کی اپروچ کا سمجھنا چاہئے جو اصل میں ساری فساد کی جڑ ہے ،یہ حقیقت نہیںکہ ہر سیاسی جماعت میں ایسے افراد اور لابیاں بیٹھی ہیں جو سیاست میں سیاست کے مقصد سے نہیں بلکہ مخصوص مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے موجود ہیں اور وہ اسی کے لئے کام کرتے ہیں ،سابق حکومت کے دور میں جب شناختی کارڈ کی شرط ہر سودے کے لئے رکھی گئی تھی ،تو چند ہفتوں بعد ہی بیک آوٹ کرنا پڑ گیا ،موجودہ حکومت کے دور میں بھی اس ایشو پر راستے نکالنے کا کام ہو ا،یعنی سیاسی عزم ڈارئنگ روم میں تو بہت بلند ہوتا ہے مگر سیاسی دباو آتے ہی رخصت ہو جاتا ہے ،یہ محض ایک مثال ہے ، سب حکومتوں کے بارے میں دفتر کے دفتر تحریر کئے جا سکتے ہیں ،یعنی سب ہی ذمہ دار ہیں ،جب پالیسی لانے والے پیچھے ہٹتے ہیں تو پالسی پر عمل کرانے والوں کو کیا پڑی ہے کہ وہ گالیاں کھائیں ، اس لئے سب ہی کو مسلے کی فہم اور اس کے حل کے لئے یک جان ہونا پڑے گا ،سیاسی عز م اور اچھی پالیسی کے ساتھ اس پر عمل کی حکمت عملی بھی چاہئے، ذہانت پر مبنی ایک ’موو‘ اب نظر آ رہی ہے اس سے جو ڈیٹا ملے گا اس کو سامنے رکھ کر اگر کوئی اچھی حکمت عمل بن گئی تو ہو سکتا ہے کہ دو تین سال میں کایا پلٹ والا معاملہ ہو جائے ،پی او ایس سسٹم کی جب بات کی جاتی ہے تو تکنیکی زبان کی وجہ سے پبلک کو اسکی سمجھ نہیں آ پاتی ،یہ وہ نظام ہے جو کسی بھی کاروبار کی اصل سیل کودکھا سکتا ہے ،اس سلسلے میں رولز کے تحت معیار مقرر کر دئے ہیں ہ کس کو اس سے منسلک ہونا ہے اور کس کو نہیں ، ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنا ہے تو کاروبار کو بھی شفاف بنانا ہے ، اب تک اس نظام کے ساتھ تین ہزار کاروبار منسلک ہو چکے ہیں ،ظاہر ہے کہ اس کی مزاحمت ہے ،تاجروں کا موقف سننا چاہئے ،ان کے خدشات کوایڈریس کرنا چاہئے مگر پی او ایس پر کوئی مصالحت نہیں ہونا چاہئے ،ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کے لئے عوام سے مدد لی گئی ہے ، وہ جو خریداری کرتے ہیں اور اس پر جو ٹیکس دے رہے ہیں وہ قومی خزانہ میں بھی جائے، اس نظام میںکاروبار کی اس طرح سے مدد کی گئی کہ جو پرچون فروش اس نظام سے منسلک ہیں انھی سے خریداری کو بڑھانے کے لئے عوام کو انعامات دینے کا اعلا ن کیا گیا ،پی او ایس کثیر الجہتی مقاصد کا حامل ہے ،یہ حکومت ،کاروبار اور صارف تنیوں کے لئے ’’ون،ون‘‘ کا حامل ہے ،یہ ہر کاروبار کو ڈاکومینٹ کرنے کا ایسا کلیہ ہے جس کو ہر صورت میں کامیاب ہونا چاہئے ، یہ اس ’متھ‘‘ کو بھی توڑ دے گا کہ تاجر ٹیکس نہیں دیتے یاآمدن کو چھپاتے ہیں ،صارف فخر کر سکتے ہیں کہ ان کا پیسہ سیدھا قومی خزانے میں گیا ہے ، یہی نظام اس ملک کو صلا حیت انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کی صلاحیت کے مطابق بھی دلائے گا اور اس کا حتمی نتیجہ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی تعداد اور شرحوںمیں کمی کی صورت میں نکل سکتا ہے ،ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ،جب عوام کو انعام ملیں گے تو ان کی حوصلہ افزائی ہو گی ،وہ ان سٹورز پر جائیں گے جو پی او ایس سے منسلک ہیں،ہر خریدار کسی بھی بڑے سٹور پر جائے تو سوال کرئے کہ پی او ایس سے منسلک ہیں یا نہیں ؟ ہر رسید کو ایف بی آر کے سسٹم میں ڈالیں،یہ قومی خدمت ہو گی ،ایف بی آر نے پہلی قرعہ اندازی کی ،جس میں پانچ کروڑ 30لاکھ روپے کے نقد انعامات صارفین کو دئے گئے ،انعام کی رقم براہ راست انعام پانے والے فرد کے بینک اکاونٹ میں جائے گی ،پہلی قرعہ اندازی میں43ہزار رسیدوں کو شامل کیا گیا تھا ،جبکہ سسٹم میں صارفین کی جانب سے32ملین رسیدیں داخل کی گئیں تھیں ،ایک غلطی جس کی وجہ سے رسیدیں سکیم میںشامل نہ کی جاسکیںوہ یہ تھی کی شناختی کارڈنمبر غلط لکھا گیا تھا،110ایسی رسیدیں مسترد ہوئیں جو سٹورز کے سیلز مین نے خود داخل کیں اور رسید کو صارف کو نہیں دیا ،ایف بی آرشفافیت کو برقرار رکھنے کے لئے انعامات پانے والوں کو میڈیا کے سامنے بھی لایا گا ،اس سکیم کے لئے حکومت پر کوئی بوجھ نہیں آئے گا ،ہر رسید پر ایک روپیہ کاٹا جاتا ہے ،یہ رقم ایف بی آر کے ایک اکاونٹ میں جا رہی ہے ،اس رقم کو ادارہ اپنے پاس نہیں رکھے گا اوراسے انعامات کی شکل میں عوام ہی کو واپس کر دیا جائے گا ، ایف بی آر کو رسید سسٹم میں داخل کرنے کا نظام سادہ اور آسان کرنا چاہئے ،پی اوایس کا نظام ’گیم چینجر‘‘ ہے اس پر ہر طوفان کے سامنے کھڑے رہنا قوم کی خدمت ہو گی ۔