بے حس معاشرہ

سینہ روشن ہو تو ھے سوز سخن عین حیات
ہو نہ روشن تو، سخن مرد دوام اے ساقی
معزز قارئین جس خدا نے ہمیں علم و دلیل اور پیرائہ اظہار کی اس دولت سے کمال فراخی سے نوازا، وہی خدا دنیا میں ہر ایک کو ایسی توفیق خیرات کرسکتا ھے, کسی نئے انداز میں اپنی ہستی بارے لب کشائی کا یارا عطاء کرسکتا ھے وہ مالک الملک کسی بھی مخلص شخص کو نئی ادا، جداگانہ طرز اظہار ارزاں کردینے پر پوری طرح قادر ھے - یہ تجلی اللہ سبحانہ تعالی کی ہماری طرف شفقت کا خاص مظہر ھے- میں نے کچھ عرصہ پہلے تک کبھی کچھ نہی لکھا تھا نہ ہی کوئی فلسفہ پڑھا لیکن اللہ پاک کے کرم سے اس سمت اٹھنے والا ہر قدم پھر بڑھتا یی گیا- یہ اللہ کریم کی مجھ گناہ گار پر خاص عنائت ھے شاید کسی بزرگ کی دعا کام آگئی-گذشتہ ہفتے پیش آنے والا سانحہ مری جو بہت زیادہ دردناک المیہ ھے اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ھے لیکن بدقسمتی سے ارض پاکستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ان واقعات اور سانحات میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ھے اسلئے صرف مذمت اور تبصرے حالات و واقعات کے تغیر میں کوئی نمایاں تبدیلی نہی لاسکتے اسکے لئے بطور معاشرہ ہمیں اور ہماری حکومتوں کو اصلاح کرنی پڑیں گی- کولونیل جارج برٹش ایمپائر میں اس قانون پر تنقید کرتے ہوئے ہمارے بارے میں ایک فقرہ لکھتا ھے کہ Civilized constitution held on un civilized nation بس یہی ہماری ناکامی کا سبب ھے 74 سال میں ہم ایک مہذب معاشرہ کی تشکیل میں کامیاب نہیں ہوسکے- اس کی گہرائی میں جانا تو اس وقت ممکن نہی لیکن ہمارے سکولز کالجز یونیورسٹیز اور حکومتوں میں کہیں بھی اس قسم کی آگاہی عوام الناس کو فراہم نہی کی جاتی جس سے ایسے ناگہانی حالات میں اپنی مدد آپ کے تجت کچھ کرنے کے قابل ہوں مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں دنیا میں کل 8-9 بلند ترین چوٹیاں ہیں جس میں سے الحمد للہ 6 پاکستان کے پاس ہیں اسکے باوجود ٹوّرازم کو آج تک بڑھایا نہی گیا اور نہ پڑھایا گیا دنیا میں کئی ممالک صرف ٹوّر رزم پر ترقی کر چکے ہیں ادھر ہر سال لاکھوں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں لیکن ہر شخص چاھے انتظامیہ ہو حکومت ہو ٹورسٹ ہو اپنی اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہیں اسلئے حادثات کی شرح بہت کم ھے- صرف حکومت کو مورد الزام ٹھہرانے سے کام نیی چلے گا نہ ہی مری کی انتظامیہ اور نہ ہی مری کے تاجر یا وہاں کے شہری اس سانحے کے اکیلے ذمہ دار ہیں- کیا جو عوام اس سفر پر گئی تھی انکی تمام تیاریاں مکمل تھیں، کیا انہوں نے ہر قسم کے موسم یا حادثاتی حالات کے لئے تیاری کر رکھی تھی ؟ کیا وہ خود یا انکے بچوں کو معلوم تھا کہ ان حالات میں کس طرح ایڈجسٹ کرنا ھے ایسے موسم سے نمٹنے کے لئے تمام سامان موجود تھا کسی قسم کوئی آگاہی تھی تو جواب نفی میں ملے گا- یہاں میرا مقصد قطعی طور پر حادثے کا شکار ہونے والوں کو مورد الزام ٹھہرانا یا کسی کا دل دکھانا مقصود نہیں صرف میرا مقصد اس بات کو پوائنٹ اوّٹ کرنا ھے - ہمیں کسی سکول کالج یا حکومت کی طرف سے کسی قسم کی کوئی آگاہی نہی دی جاتی جس کے سبب ایسے واقعات میں ہم لوگ بیبس ہو جاتے ہیں اور جس معاشرہ سے ہمارا تعلق ھے وہاں بے بسی میں لوگ بے حسی ہوجاتے ہیں مجبوریوں سے فائدہ اٹھانا کوئی معیوب بات نہی سمجھی جاتی- ہمیں یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ گراس روٹ سے اپر لیول تک جب یہی حال ھے تو اپنی مدد آپ کے تحت سب کچھ کرنا پڑے گا- ویسے تو جن ممالک میں برف پڑتی ھے وہاں لائ اینڈ آرڈر بہت مضبوط ھے ہر شخص کو اپنے ایریا کے سامنے سے 5 فٹ برف صاف رکھنے کا آرڈر ھے ورنہ بھاری جرمانہ عاِئد ہوجاتا ھے اس قانون سے صدر تک مبرائ نہی انہیں بھی خود ہی برف صاف کرنی پڑتی ھے- اگر پاکستان میں نظر دوڑائیں تو برف پڑنے پر ان علاقہ جات کو بند کرکے ذمہ داری پوری کردی جاتی ھے اسی طرح مری کے تاجر جن کا کاروبار سیاحوں سے منسلک ھے کیا انکے پاس اپنی کار پارکنگز ہیں اور کیا برف صاف کروانے کے کوئی انتظامات ہیں سیاحوں کو پورا اور اچھا پروٹوکول دینا انکا اولین فرض ہونا چاھئے جبکہ وہ مردے کا کفن اتارنے میں مصروف عمل دکھائی دہتے ہیں اسی طرح انتظامیہ کی بدترین غفلت جو ناقابل معافی ھے- اہلیان مری اپنے گھروں کے سامنے سے برف صاف کرنے کے ذمہ دار ہوں - مری کے لوگوں کے رویئے انتہائی نامناسب ہیں وہ اگر مسلمان بن کر سوچتے اور اپنے بہن بھائیوں کا ساتھ دے دیتے تو شاید اس طرح نہ ہوتا سب سے اہم بات حکومت وقت بہت دیر سے بیدار ہوئی جب نقصان ہوچکا تھا - آخر میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ ان واقعات و حادثات کے سبب خدا کا حکم سرگوشیاں کررھا ھے کہ ابھی بھی وقت ھے صراۃ مستقیم کی طرف پلٹ آوّ ہم اسے بھول بیٹھے ہیں اس سے معافی کا وقت آن پہنچا ھے-ایک مرتبہ پھر سانحہ مری میں شہید ہونے والوں سے اظہار تعزیت ہم۔ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں خدارا اپنا اور اپنے بچوں کا خاص خیال رکھیں اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین