بھارت: مسلمانوں کے اجتماعی قتل عام کے منصوبے
بھارت تیزی سے اپنے انجام کی کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ انجام ہے بھارت کا ٹکڑے ٹکڑے ہونا ، ٹوٹ جانا اور بکھرجانا ہے۔ اس لیے کہ بھارت کی بنیاد ظلم وجبر اور انسانی لاشوں پر رکھی گئی ہے ۔ جس کی بنیاد ظلم وجبر پر ہواسے کبھی دوام اور استحکام نہیں ملتا۔ 1947ء میں جب بھارت معرض وجود میں آیا اس وقت بھی لاکھوں مسلمانوں کاخون بہایا گیا۔ پورا ہندوستان مسلمانوں کے خون سے سرخ ہوگیا جبکہ کنوئیں، دریا، ندیاں نالے مسلمانوں کی لاشوں سے اٹ گئے۔ ستم یہ ہے کہ بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر مظالم ڈھائے جانے کاسلسلہ آج بھی جاری ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ مظالم بڑھتے جارہے ہیں، اور اقلیتوں ، بالخصوص مسلمانوں، کے لیے بھارت میں زمین تنگ ہوتی جارہی ہے۔ بھارت میں انتہا پسند ہندئووں کا اگر بس چلے تو وہ مسلمانوں کے نیچے سے زمین، اوپر سے آسمان اور قدرت کی طرف سے میسر تازہ ہوابھی چھین لیں ۔ بدقسمتی سے یہی انتہا پسند ہندو طبقہ اس وقت بھارت میں برسراقتدار ہے۔ اس جنونی طبقہ کے پاگل رہنما اور کارکن کبھی مسلمان خواتین کی تذلیل کے لیے آن لائن فروخت کے اشتہار دیتے ہیں تو کبھی ان کے قتل عام کی علانیہ تجاویز پیش کرتے ہیں ۔
کچھ دن قبل، بھارت کی شمالی ریاست اتراکھنڈ میں ہندئووں کے مقدس شہر ہری دوار میں دھرم سنسد کے نام پر ہونے والے چار روزہ جلسہ کے دوران انتہا پسند ہندئووں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت وانتقام کے شعلے اگلے اور ان کے قتل عام کے علانیہ منصوبے بنائے گئے ۔ حد یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت وانتقام کے شعلے اگلنے میں انتہا پسند ہندو عورتیں بھی پیش پیش تھیں ۔ جس معاشرے میں عورتیں نفرت وانتقام میں اس حد تک اندھی ہو جائیں وہاں انصاف بھی اندھا ہوجاتا ہے۔ اس وقت بھارت میں یہی کچھ ہورہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے لیے خطرات بہت بڑھ چکے ہیں۔ عقل کی اندھی ایک انتہاپسند ہندو خاتون رہنما نے کہا کہ چند سو ہندو اگر مذہب کے سپاہی بن کر بیس لاکھ مسلمانوں کو ہلاک کر دیں تو وہ فاتح بن کر ابھریں گے۔ ایسا کرنے سے ہندو مت کی اصل شکل ’سناتن دھرم‘ کو تحفظ فراہم کرنا یقینی ہوجائے گا۔ اس خاتون مقرر نے ہندوؤں کو مشتعل کرتے ہوئے کہا کہ وہ مسلمانوں کو ہلاک کر کے جیل جانے سے مت گھبرائیں کیونکہ مسلمانوں کا قتل پاپ نہیں بلکہ پاپ سے پوتر ہونے کاسبب ہے۔ اسی خاتون نے لوگوں کو تلقین کی کہ وہ ناتھو رام گوڈسے کے حالات زندگی پڑھیں اور اس کی راہ پر چلیں ۔یاد رہے کہ ناتھو رام گوڈسے وہی انتہاپسند ہندو تھا جس نے دسمبر 1948 ء میں موہن داس گاندھی کو قتل کیا تھا۔ دوسرے لفظوں میں یہ عورت اپنی قوم سے کہہ رہی ہے کہ جس طرح ناتھو رام نے گاندھی کو قتل کیا ایسے ہی اب ہندو مسلمانوں کو قتل کریں۔ جلسے سے ایک جنونی ہندو اودھیشانند گری نے آگ کے شعلے اگلتے ہوئے کہا، اب وقت آگیا ہے کہ ہم مسلمانوں کو قتل کرنے اور ان کانام ونشان مٹانے کے لیے تیار ہو جائیں۔ مسلمانوں کا قتل ایک عظیم کام ہے، اس سے جہاں ہماری دھرتی پوتر ہوگی وہاں ہماری آتما بھی شانت ہوگی۔ دھرتی کو ناپاک مسلمانوں کے وجود سے پوتر کرنے اور آتما کوشانت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے سیاستدان، حکمران، فوج، پولیس اور عام ہندو مسلوں کے خلاف ہتھیار بند ہوکر میدان عمل میں آجائیں اور مسلمانوں سے وہ سلوک کریں جو میانمار میں کیا گیا۔
میانمار میں مسلمانوں سے جو بھیانک اور ظالمانہ سلوک کیا گیا وہ تاریخ انسانی کے چہرے پر بدنما داغ ہے۔ میانمار میں مسلمانوں کو کاٹ کرچوکوں، چوراہوں اور گلیوں میں اس طرح لٹکایا گیا جس طرح قصاب جانوروں کو لٹکاتا ہے۔ میانمار کی کی اس وقت کی برسر اقتدار جماعت کو مودی کی اشیر باد حاصل تھی۔ گویا میانمار کی حکومت نے مسلمانوں کا یہ قتل عام مودی حکومت کے تعاون سے کیا۔ واضح رہے کہ یہی انتہا پسند ہندو لیڈراودھیشانند گری اکثر بی جے پی کے اہم لیڈروں کے ساتھ مختلف تقریبات میں دیکھا جاتا ہے جبکہ اودھیشانند گری کی ایسی تصاویر بھی موجود ہیں جن میں اتراکھنڈ کا وزیر اعلیٰ پشکر دھامی جو بی جے پی سے تعلق رکھتا ہے، اس کے پاؤں چھوتے نظر آ تا ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ اودھیشانند گری کی انتہا درجے کے مسلم دشمن ہفوات اورشیطانی خواہشات کو حکمران جماعت کی اشیر باد حاصل ہے۔ ذرائع کے مطابق، جب بعض میڈیا ہائوسز نے اودھیشانند گری سے رابطہ کر کے اس کا موقف جاننے کی کوشش کی تو اس کا جواب تھا، میں نے جو کہا اس پر شرمندہ نہیں ہوں، میں پولیس سے نہیں ڈرتابلکہ اپنے بیان پر قائم ہوں۔
اسی طرح، ایک مقرر یتی نرسنگھ آنند سرسوتی نے شعلے اگلتے ہوئے کہا، نریندر مودی بھارت دیش کا پہلا پردھان منتری (وزیراعظم) ہے جس نے ہماری آتمائوں کو شانت کیا ہے۔ مودی سے پہلے کے حکمران توبس فضول ہی تھے۔ کاش ہم مودی سے پہلے کے حکمرانوں کو قتل کرسکتے۔ مطلب یہ ہے کہ مودی پہلا پردھان منتری ہے جس نے سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کو قتل کرنے کاحق ادا کیا اور اس قتل عام سے ہماری آتمائیں شانت ہوئیں۔ بھارت کی موجودہ حکمران جماعت بی جے پی ہو یا سابقہ حکمران جماعت کانگریس، دونوں ہی مسلمان دشمن ہیں ۔ بھارت میں انتہا پسندی کی موجودہ لہر کانگریس کی مہربانیوں کا فیض اور ثمر ہے۔ ناتھو رام گوڈسے کی ذریت کو قومی دھارے میں لانے والی کانگریس ہی تھی۔ بعد ازاں، اسی شیطانی ذریت سے بی جے پی نے جنم لیا۔ مزید یہ کہ کانگریس ہو یا بی جے پی، دونوں کی مسلم دشمنی میں کوئی فرق نہیں۔ فرق اگر ہے تو طریقۂ واردات کا ہے ۔ کانگریس کی بغل میں چھری اور منہ میں رام رام ہوتا ہے جبکہ بی جے پی کی بغل میں بھی چھری ہے اور منہ میں بھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب کانگریس برسر اقتدار تھی تو وہ بھی بے دریغ مسلمانوں کا قتل عام کرتی رہی۔ اب بی جے پی درحقیقت کانگریس کا ادھورا شیطانی کام پورا کررہی ہے ۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ انسانی حقوق کے ادارے ، اقوام متحدہ ، امریکا اور یورپ مسلمانوں کا قتل عام رکوائیں اور بھارت کو ایک دہشت گرد ملک قرار دیں۔