منگل، 14 جمادی الثانی 1443ھ، 18 جنوری 2022ء

شہزادہ ہیری پولیس سکیورٹی نہ ملنے پر عدالت پہنچ گئے
حیرت ہے ہمارے جیسے غیر ترقی یافتہ ممالک میں شہزادہ تو دور کی بات عام ایم پی اے بھی اپنے لیے خصوصی طور پر بھاری سکیورٹی طلب کرتا ہے تاکہ وہ جب باہر نکلے تو سکیورٹی گارڈز کی بھرمار سے دیکھنے والوں پر دہشت طاری ہو جائے۔ سرکاری سکیورٹی سے ان کا دل نہیں بھرتا تو درجنوں نجی گارڈز بھی حاصل کیے جاتے ہیں جن کے جم غفیر میں ایم این اے یا ایم پی اے یا پھر کوئی وزیر جب نکلتا ہے تو یوں لگتا ہے گویا کسی بڑے خطرناک شخص کو پولیس اور گارڈز گھیرے میں لے جا رہے ہیں۔ اب معلوم نہیں اس سے لوگوں پر اچھا اثر پڑتا ہے برا۔ دوسری طرف ترقی یافتہ اقوام میں دیکھ لیں حکمرانوں کو شکایت ہے کہ ان کو سکیورٹی مہیا نہیں کی جاتی۔ یعنی ان کے اردگرد سرکاری خرچ پر پولیس اہلکار تعینات نہیں ہوتے۔ اسی لیے برطانوی شہزادہ ولیم نے شاہی فرائض سے دستبرداری کے بعد سرکاری سکیورٹی واپس لینے پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے درخواست کی ہے کہ انہیں مناسب سکیورٹی مہیا کی جائے۔ یہ فرق ہوتا ہے مہذب اور غیر مہذب اقوام میں، ان کے معاشرتی رویوں میں۔ وہاں عوام کے پیسے سے چلنے والے ادارے حکمرانوں کی بجائے عوام کی سہولت، خدمت اور حفاظت کے لیے کام کرتے ہیں۔ سرکاری حکومتی وزیروں، مشیروں ، صوبائی و قومی اسمبلی ممبران کی خدمت پر مامور نہیں کئے جاتے۔ شہزادہ ولیم سے تو ہمارا بلدیاتی چیئرمین زیادہ طاقت رکھتا ہے یا عام تھانے کا ایس ایچ او کہ جب وہ کہیں جائے تو درجنوں پولیس اہلکار جن کا کام عوام کی حفاظت ہوتا ہے، ان کی شان بڑھاتے ان کی حفاظت پر مامور نظر آتے ہیں۔
٭٭٭٭
مہنگائی ، منی بجٹ اور سود کے خلاف تحریک چلائیں گے۔ سراج الحق
جماعت اسلامی کی حد تک یہ بات برحق ہے کہ وہ اپنی تنگی داماں کے باوجود سیاسی میدان میں دیگر بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کی نسبت زیادہ متحرک رہتی ہے۔ عوامی مسائل پر بات بھی کرتی ہے۔ جلسے کرتی اور جلوس نکالتی ہے۔ عوام کوساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتی ہے۔ دیگر عوام کی نمائندگی کرنے والی جماعتوں سے تو یہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ زبانی کلامی توپیں چلانے کے علاوہ بھی کچھ کرکے دکھائیں۔ انہیں تو پارلیمنٹ میں سینیٹ میں بھرپور نمائندگی بھی حاصل ہے۔ مگر سڑکوں پر آ کر عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے میں پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ (ن) جے یو آئی ہو یا کوئی اور جماعت ناکام نظر آتی ہے۔ اس کا نقصان بھی انہی جماعتوں کو اٹھانا پڑے گا۔ کیوں کہ ان کی یہ خاموشی عوام کی نظروں میں انہیں گرا رہی ہے۔ کراچی ، لاہور ، کوئٹہ اور پشاور ہر جگہ جماعت اسلامی متحرک نظر آ رہی ہے کہیں مہنگائی کہیں قیمتوں میں اضافے یا بلدیاتی نظام کے معاملے پر ، کہیں منی بجٹ ، عورتوں کے حقوق اور کہیں سود کے خلاف سڑکوں پر آ کر عوام کو جگانے کی کوشش کرتی ہے۔ زیادہ نہ سہی تھوڑے بہت لوگ ہی سہی اس کے ساتھ کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ کیا ہماری بڑی سیاسی جماعتیں اتنی ہی گئی گزری ہیں کہ ان سے یہ بھی نہیں ہو رہا کہ عوام کو باہر نکالنے میں کامیاب ہوں۔ اگر ایسا ہے تو پھرانہیں اگلے پانچ برس بھی پی ٹی آئی کی حکومت کا ہی سامنا کرنا پڑے گا۔ چاہے کتنا ہی شور مچاتی رہیں۔
٭٭٭٭
کچے کے علاقے میں پولیس آپریشن، چھوٹو گینگ کے 3 ڈاکو ہلاک
یہ چھوٹو گینگ تو شیطان کی آنت بنا ہوا ہے۔ نام تو اس کا چھوٹو ہے مگر کام سارے بڑے بڑے ہوتے ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک ڈاکو اس گینگ کی شان بڑھاتا نظر آتا ہے۔ ہر پولیس آپریشن میں جو دو تین ڈاکو مارے جاتے ہیں۔ ان کے سر کی قیمت لاکھوںسے کم نہیں ہوتی۔ ہر بار حکومت نئے عزم کے ساتھ کچے کے علاقے سے ڈاکوئوں کے خاتمے کے نام پر بڑے بڑے آپریشن کرتی ہے مگر یہ سب آپریشن نقش برآب ثابت ہوتے ہیں۔ ان ڈاکوئوں کے سرپرست وردی والے اور بغیر وردی والے ان کے ہمدرد آپریشن سے قبل ہی انہیں باحفاظت نکال لیتے ہیں اور آپریشن ختم ہونے کے بعد واپس باحفاظت ان کے ٹھکانوں پر پہنچا دیتے ہیں۔ ورنہ پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری اور اسلحہ کے ساتھ شروع ہونے والے یہ تمام آپریشن آج تک ناکام کیوں رہے ہیں۔ ڈاکو چھوٹو گینگ کے ہوں یا بڑے گینگ کے بہرحال سینکڑوں سے زیادہ نہیں ہوں گے۔ اگر ہزاروں میں ہیں تو پھر ان کے خلاف فوجی ایکشن لیں کچے کے علاقے کو ان سے پاک کرنے کے لیے ان ڈاکوئوں اور ان کے ٹھکانوں کو جیسے بھی ہو، ملیامیٹ کردیں تاکہ سندھ اور پنجاب کے عوام کو ان سے نجات مل سکے۔ صرف یہی واحد حل ہے جس کے سامنے ان کے سرپرست بھی چوں چراں نہیں کرسکیں گے۔ یوں خس کم اور جہاں پاک ہو گا ورنہ یہ جونکیں یونہی پلتی رہیں گی۔
٭٭٭٭
ڈجکوٹ: گھر گھر جا کر لگائی جانے والی کرونا ویکسین کوڑے کے ڈھیر سے برآمد
شاید اس طرح ڈجکوٹ رورل سنٹر والوں نے سوچا ہو کہ کرونا پر جلد قابو پایا جا سکتا ہے۔ گھر گھر جا کر ویکسین لگانے کی زحمت کون کرے۔ بہتر ہے کہ کچرے کے ڈھیر پر ویران جھاڑیوں میں ویکسین کی خوراکیں پھینک کر زیادہ بہتر طریقے سے کرونا کے جراثم کے خاتمے میں مدد ملے گی اور کھلی آب و ہوا اور گندے مقامات پر یہ دوا کرونا کیساتھ ساتھ دیگر بیماریوں کے جراثیم کو بھی ختم کر دے گی۔ یوں ایک تیر سے دو شکار ہو جائیں گے۔ اب ایک طرف دنیا بھر میں کرونا سے بچنے کیلئے ہر ایک کی ویکسینیشن پر زور دیا جا رہا ہے۔ ادھر ہم ہیں کہ یہ ویکسین کچرے میں پھینکتے پھرتے ہیں۔ شاید ہم خود کو کرونا پروف سمجھتے ہیں۔ ہمیں کرونا ویکسین عطیات میں دینے والے ممالک ہماری یہ بے نیازیاں دیکھیں تو تلملا اٹھیں کہ عجب قوم ہے۔ ایک طرف ہاتھ پھیلائے مانگتی پھرتی ہے‘ دوسری طرف ملنے والی امداد ضائع کرتی پھرتی ہے۔ یہ رونا صرف کرونا کا ہی نہیں‘ پولیو ویکسین کے بارے میں بھی ایسی بے شمار خبریں ملتی رہی ہیں کہ اس کی ادویات کی بڑی تعداد کسی نالے سے‘ کسی کچرے کے ڈھیر سے برآمد ہوتی رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ہم ابھی تک پولیو سے لڑ رہے ہیں۔ محکمہ صحت اور وزارت داخلہ ایسے عوام کی صحت کے دشمنوں کے خلاف سخت اور فوری ایکشن لے تا کہ امداد اور عطیات دینے والے ہمارے دوستوں کے سامنے ہماری سبکی نہ ہو۔
٭٭٭٭