کیا وزیراعظم خود اس کی وضاحت کریںگے؟

ملک کی پہلی قومی سلامتی پالیسی کے منظر عام پر آنے کے بعد سے یہ معاملہ مختلف سطحوں پر ملک کے اندر اور باہر زیر بحث آرہا ہے کہ کیا حکومت نے بھارت سے متعلق کوئی ایسی حکمت عملی تو طے نہیں کی جس کے تحت یہ فیصلہ کرلیا گیا ہے کہ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کے بارے میں کوئی بھی بات کیے بغیر تجارتی تعلقات کو فروغ دیا جائے۔ اس حوالے سے ایک انگریزی روزنامہ میں ایک خبر پالیسی کے باضابطہ اعلان سے تین روز پہلے شائع ہوئی جس میں ایک عہدیدار کے حوالے سے کہا گیا کہ ہم اگلے ایک سو برس تک بھارت کے ساتھ مخاصمت نہیں چاہتے۔ نئی پالیسی کا مقصد قریبی ہمسایوں کے ساتھ امن قائم کرنا ہے۔ خبر چھپنے کے اگلے روز بھارت کے ایک سینئر صحافی شیکھر گپتا نے اپنے وی لاگ میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ہزار سال تک جنگ لڑنے والے بیان اور اس خبر میں کہی گئی بات کا آپس میں موازنہ کرتے ہوئے اپنا تجزیہ پیش کیا۔
امن و امان کے قیام کی خواہش بہت اچھی بات ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کسی ظالم و جابر کو اس بات کی اجازت دیدی جائے کہ وہ کسی مظلوم کے ساتھ جو چاہے سلوک کرے، جواب میں اس کے لیے محبت و موانست کا اظہار کیا جائے گا۔ بھارت اگر اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو فروغ دینے اور خطے میں طاقت کے زور سے اپنی چودھراہٹ قائم کرنے سے باز آ جائے تو اس کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے اور اچھے ہمسایوں کی طرح رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن گزشتہ ساڑھے سات دہائیاں گواہ ہیں کہ بھارت نے اپنے ہر ہمسایے کو ڈرانے دھمکانے اور دھونس دھاندلی کے ذریعے خود کو زور آور ثابت کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان، چین، نیپال، سری لنکا، بنگلہ دیش سمیت کوئی بھی ایسا ہمسایہ نہیں جس سے بھارت نے کسی نہ کسی موقع پر تعلقات بگاڑنے کے لیے کوئی ایسی حرکت نہ کی ہو جو بین الاقوامی سطح پر بحث کا موضوع بنی۔
اسی تناظر میں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کا معاملہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی کلید ہے۔ جس دن بھارت اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اس مسئلے کے حل کے لیے کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دیدے گا اس دن سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اور معاملات بہتری کی طرف گامزن ہو جائیں گے لیکن 5 اگست 2019ء کو مودی سرکار کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق بھارتی آئین کی شق 370 اور 35 اے کو ختم کرنے سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ بھارت اس مسئلے کو حل نہیں کرنا چاہتا بلکہ وہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو پورا کرنے کے لیے ڈٹا ہوا ہے۔ اس ضمن میں بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن ان کی مجرمانہ خاموشی اس مسئلے کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
دو روز پہلے قابض بھارتی افواج نے کشمیر پریس کلب پر حملہ کر کے صحافیوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کو نہ صرف ہراساں کیا بلکہ انھیں غیر قانونی طور پر گرفتار بھی کیا گیا۔ اس حوالے سے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار احمد نے کہا کہ پاکستان غیر قانونی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض افواج کی جانب سے صحافیوں اور سول سوسائٹی کے خلاف جعلی مجرمانہ کیسوں کے اندراج اور غیر قانونی گرفتاریوں کے بڑھتے واقعات کی مذمت کرتا ہے۔ پریس کلب پر حملہ بھارت کے زیرتسلط کشمیر میں جرائم اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف بلند ہونے والی آوازوں کو خاموش کرنے کی ایک کوشش تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے کالے قوانین بشمول ان لافل ایکٹیویٹیز پریونشن ایکٹ، پبلک سیفٹی ایکٹ اور آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ کے استعمال میں اضافے کی بھی شدید مذمت کرتے ہیں۔ بھارت کی ریاستی پشت پناہی میں دہشت گردی کشمیریوں کے حق استصواب رائے کے عزم کو کبھی کمزور نہیں کر سکتی۔ انھوں نے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت کو صحافیوں، انسانی حقوق و سول سوسائٹی کارکنان کو ہراساں کرنے اور غیر قانونی گرفتاریوں پر احتساب کے کٹہرے میں لائیں۔
ایک طرف یہ سب کچھ چل رہا ہے تو دوسری جانب بھارت کی پاکستان کے خلاف آبی جارحیت بھی جاری ہے۔ اس سلسلے میں سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت دریائے سندھ پر غیر قانونی ڈیم کی تعمیر کررہا ہے۔ رواں برس مارچ میں بھارتی واٹر کمشنر کی پاکستان آمد متوقع ہے اور وزارتِ آبی وسائل کا کہنا ہے کہ اس موقع پر انھیں غیر قانونی ڈیموں کی تعمیر سے متعلق پاکستان کے تحفظات سے آگاہ کیا جائے گا۔ اس سب کی موجودگی میں بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات میں اس وقت تک کوئی پیش رفت نہیں کی جانی چاہیے۔ جب تک وہ ایک امن پسند ہمسایے کے طور پر خود کو پیش نہ کرے، لہٰذا ان دنوں قومی سلامتی پالیسی کے تحت، کشمیر کے مسئلے سے صرفِ نظر کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کی جو خبریں یا افواہیں گردش میں ہیں ان سے متعلق وزیراعظم عمران خان کو قوم کے سامنے خود وضاحت پیش کرنی چاہیے کیونکہ کشمیر پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے!