11لاکھ کی آبادی بنیادی سہولتوں سے محروم

یہ حقیقت ہے کہ جام پور میں گندگی ہے مین ہولزکے ڈھکن نہیں سیوریج کا نظام تباہ ہے مگر ہر روز تنقید کا نشانہ ۔ صرف اور صرف بلدیہ جام پور کا محنت کش غریب عملہ صفائی ۔لیکن اس کے بر عکس پنجاب حکومت کی جانب سے نئی بھرتیوں پر مسلسل پابندی اور فنڈز کی عدم فراہمی پر آج تک کبھی ہم میںسے شاید کسی نے غور کرنا گوارا ہی نہیں کیا مذکورہ تحریر کرنے سے میونسپل کمیٹی کی وکالت ہر گز مطلوب نہیں لیکن اصل حقائق سے نوجوان لکھاریوں اور شہریوں کو آگاہی دینا بھی ضروری ہے مقصود صرف اتنا ہے کہ اپنی توانائی میونسپل کمیٹی حکام یا عملہ پر تنقید کی بجائے پنجاب حکومت اور حکومت میں شامل اراکین اسمبلی کی توجہ ان مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل کی جانب مبذول کرانے پر صرف کریں۔شہر کو تجاوزات اور ناجائز قابضین سے نجات دلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔نام نہاد ماڈل سٹی ترقیاتی پیکیج کے نام پر بغیر کسی پلاننگ کے شہر کو ادھیڑ کر رکھ دیا گیا۔محکمہ پبلک ہیلتھ اور ہائی وے نے پورے شہر کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔مین فورس سپورٹ لائن شیرو اڈا تا جنرل بس اسٹینڈ براستہ سپورٹس اسٹیڈیم نالہ سون جسے سب سے پہلے بنایا جانا تھا ابھی تک مکمل نہیں ہوئی محکمہ پبلک ہیلتھ نے کوٹلہ چونگی سے گدارہ کالونی تک کی پائپ لائن کو مکمل کرنے کیلئے 30 کروڑ روپے کی مزید رقم طلب کر لی اب '' تخت لاہور '' یہ گرانٹ دے گا تو سیوریج لائن مکمل ہو گی سیوریج لائن مکمل ہو گی تو شہر سے گندے پانی کا راج ختم ہو گا 10مربع کلو میٹر میونسپل کمیٹی کی حدود بڑھ گئی ہے عملہ صفائی 1985والاہے اس میں سے بھی کچھ فوت ہو گئے کچھ ریٹائرڈ ہو گئے مگر نئی بھرتی پر پابندی کی وجہ سے یہ سیٹیں خالی ہیں۔جب سے جام پور میں اوپن ڈرینیج سسٹم کا خاتمہ اور انڈر گراونڈ سیوریج سسٹم کا نظام رائج ہوا بلدیہ جام پور کو تربیت یافتہ سیور مین ہی نہیں ملے موجود عملہ صفائی میں سے کسی سے سیور مین کسی سے پلمبر اور کسی سے ٹریکٹر ڈرائیور کا کام لیکر کسی نہ کسی طرح سسٹم کو چلانے کی کوشش کی جار ہی ہے سیور لائن کی مدت 10 سے 15 سال ہوتی ہے اور چالیس سال گزر چکے وہی لائن چل رہی ہے جسے '' گنڈھ تروپ '' کر چلایا جا رہا ہے ڈسپوزل اسکیموں کی مشینری اور الیکٹرک موٹریں بوسیدہ ہونے کی وجہ سے آئے روز خراب ہوجاتی ہیں جونہی لنڈی پتافی روڈ ڈسپوزل بند ہوتی ہے پورے شہر میں سیوریج کے گندے پانی کا سیلاب آجاتا ہے۔بلدیہ جام پور میں چیف آفیسر میونسپل ،فنانس آفیسر کے علاوہ تمام پوسٹیں خالی پڑی ہیں اور ان دو افسران کو بھی تحصیل کونسل کے علاوہ چار ٹاون کمیٹیوں کے اضافی چارج الگ سے ملے ہوئے ہیں۔ہم سب بہت خوش ہوئے کہ داجل۔حاجی پور۔محمد پور دیوان۔کوٹلہ مغلان کو ہمارے مطالبات اور خواہشات کی روشنی میں ٹاون کمیٹیوں کا درجہ دے دیا گیا ہے مگر آج تک ان کمیٹیوں میں نہ تو سٹاف تعینات کیا گیا ہے نہ ہی فنڈز فراہم کیے گئے ہیں اور ان قصبات میں بھی ضلعی و تحصیل انتظامیہ کے احکامات کی روشنی میں بلدیہ جام پور کا عملہ اور گاڑیاں جاتی ہیں۔جبکہ شہر کے '' ناجائز اور جبری معززین کی پھٹیک '' الگ بلدیہ جام پور کے عملہ صفائی پر ہوتی ہے۔ زمینی و جغرافیائی حدود ریونیو اور آبادی کے تناسب سے بھی جام پور ضلع کا قیام ہر معیارپر پورا اترتا ہے اور ہمارے ڈویژن ڈیرہ غازیخان میں شاید واحد ضلع ہے جہاں پر نہ ہی کوئی ون وے روڈ ،نا میڈیکل کالج ،نا کوئی یونیورسٹی اور نہ ہی سوئی گیس جیسی سہولت ہے وفاقی حکومت و وزیر اعظم پاکستان بھی اس اہم ترین مسائل کو حل کریںمشتمل اور بنیادی حقوق سے محروم اس تحصیل پر رحم کرتے ہوئے اسے ضلع کا درجہ دیا جائے جام پور کے منتخب نمائندوں سے عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ اپنے وعدے کے مطابق جام پور تحصیل کو ضلع کا درجہ دلوائیں۔ یہاں عوام کے مسائل بہت زیادہ ہیں۔ بہت زیادہ آبادی اور دور دراز کے علاقہ مکین جام پور میں ہی ضلعی دفاتر ہسپتال اور ہیڈکواٹرز بنتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہر الیکشن پر اس کا وعدہ کیا گیا۔
سابقہ الیکشن پر سردار جعفر خاں لغاری اور محسن لغاری نے الیکشن جیتنے پر ایک سال کے اندر جام پور کو ضلع بنوانے اور سوئی گیس دینے کی ایک یادداشت پر دستخط بھی کیے تھے۔ اب عوام کا سخت مطالبہ ہے کہ 11 لاکھ آبادی پر مشتمل ہے تحصیل کو ضلع کا درجہ دیا جائے۔