ہمیں یاد ہے ذرا ذرا

ماہ و سال گذر رہا ہے لمحوں اور وقت کا سلسلہ کار کائنات میں اپنی آمد و رفت ریکارڈ کرارہا ہے اور لوح محفوظ کا حصہ بن رہا ہے۔ کچھ ہفتے قبل 17دسمبر 2020بھی تھا سقوط ڈھاکہ کا سیاہ دن ؟اور اب 2021 شروع ہے جبکہ دنیا آجکل Covid-19کے مہلک وار سے نبرد آزما ہے 12-1/2لاکھ کے قریب ہلاکتیں ہو چکی بدقسمتی سے سپر پاور امریکہ اس میں بھی سرفہرست رہا اور اب جبکہ دوسرا دور شروع ہو چکا 2/3ہزار کے قریب روزانہ ہلاکتیں ہو رہی ۔پاکستان میں ایک سو سے زائد انسان لقمہ اجل بن رہے ہیں ۔یورپ میں بھی سلسلہ جاری ہے مگر برطانیہ آجکل سب سے زیادہ متاثر ہوگیا ایک بار پھر حتیٰ کہ تمام دنیا نے تقربیاًبرطانیہ سے آنے والوں ۔ہوائی اور زمینی سفر پر پابندیاں لگا دی چندExceptionsاور تحفظات کے ساتھ ۔چین ،برطانیہ ،امریکہ سمیت پاکستان میں بھی ویکسین پر تجربات جارہی ہیں بہرحال امریکہ چین اور روس نے ویکسین برآمد کرنا شروع کر دی ہے کچھ ملکوں سے معاہدے ہو رہے ہیں ۔کیا یہ مکافات عمل ہے جو انسانوں کو صرف آہینہ دکھانے کے مترادف ہے یا کسی بڑی تباہی کی علامت؟مگر ہم بھی عجیب قوم ہیں مختلف طبقات اور نقطہ نظر کے حامل لوگ بے خطر زندگی گزار رہے ہیں علاج اور ماسک سے مبراء دیگر اس خیال کے حامل ہیں کچھ نہیں ہوگا معمولی احتیاط برت لیں ۔رہی حکومت وقت تو وزیراعظم کرونا19-کے آمدکے آغاز سے تسلسل سے تقاریر میں وعظ کر رہے ہیں۔ اداروں سمیت حزب اختلاف کا خیال ہے کہ عمران خان کرونا کے پیچھے چھپ رہا ہے تحریک کے ذریعے استعفیٰ لے کر دم لیں گے گو کہ آجکل مولانا فضل الرحمان اپنی پارٹی JUI(f)کے احتساب کی زد میں ہیں حکومتی مخالفت اور NAB،کے نوٹسز سمیت مولانا شیرانی ،حافظ حسین احمد وغیرہ نے بلوچستان سے علم احتساب بلند کیا ہے ۔اور مولانا کو اقتدار کے حصول اور ذاتی فیصلوں پر مبنی ایجنڈا کا حامل قرار دیا اور شوریٰ کے فیصلوں کی نفی کا بھی ذمہ دار ٹھہرایا ۔مگر مولانا اپنے مدرسوں کے طالبعلم کے زور پر اورکچھ وردی پہنے افراد پر مبنی فورس سے حکومت کو ڈرا رہے ہیں جبکہ بلاول اور مریم سمیت PDM،ان سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش میں ہے مولانا کی تمام پارٹیوں کے استعفوں کی خواہش میرے خیال میں پوری نہیں ہوگی کیونکہ پاکستان کے نصیب میں جموریت کب آئی اور ووٹ کو عزت کس نے دی ۔سول اور ملٹری حکومتوں نے آج تک پاکستان اور عوام کو دیا اپنے اپنے اقتدار کے مزے لینے اور مراعات کا حصول اور پاکستان اور بیرون ملک جائیدادیں اور بینک اکاؤنٹس؟
رہے عوام تو ہر بار نئی آس و امید ،سابقہ تلخ تجربات کے بعد آجکل بھی بے روزگاری ،مہنگائی ،لاقانونیت اور عدم استحکام اورعدم اعتماد کی فضا ہے اندرونی اور بیرونی عوام اور پاکستان کے خلاف سازشی عناصر مصروف کار ہیں ۔پالیسی ساز اداروں اور مالیاتی شعبوں میں خاص کر بین الاقوامی ایجنٹس عرصہ دراز سے آج تک براجمان ہیں خاص کر جنرل ایوب دور سے عمران خان تک ۔وہ عمران خان جو قوم کو نئی دنیا نیا نظام اور بین الاقوامی قرضوں سے نجات اور نہ جانے کیا کیا کہتے رہے مگر ہم اسی پرانے جال میں الجھتے جارہے ہیں ۔آئے روز عالمی بینک اور IMF،سمیت پاکستان کو گیس اور بجلی کے ریٹس بڑھانے پر زور دے رہے ہیں حکومت چھ ارب ڈالر کے قرضے پر بات کر رہی ہے ۔زراعت جو پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کا کام کر سکتی ہے کسی خیر خواہی کے پروگرام اور پالیسی کی منتظر ہے مگر مشیران نیکوکارکیوں پاکستان کو قرضوں سے نجات کا راستہ دکھائیں گے وہ کل کی طرح آنے والے کل واپس اپنے بین الاقوامی آقاؤں کے پاس چلے جائیں گے ہمارے فیصلہ ساز اگر کوئی ہیں اس بات پر غور کیوں نہیں کرتے کہ پاکستان ہے تو وہ اور ان کارخانے ،بینک اکاؤنٹس ،عہدے اور وزارتیں ہاؤسنگ کالونیاں اور بنگلے آرام آسائشیں ،غیر ضروری اسرائیل سے تعلقات امریکہ کے نئے صدر جاڈ بائیڈن سے امیدیں بہتری کی ۔بھارت کی ریشہ دوائیوں اور جنگی مہم جوئی سے 1965،1971،1984،1989،اور کشمیر میں بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام اور بے حرمتی اور آزاد کشمیر میں بے گناہ شہریوں پر روزانہ بھاری ہتھیاروں سے آگ برسانے اور ہلاکیتں حتیٰ کہ ہم تو اقوا ممتحدہ کے مبصرین کو 72سال سے پال رہے ہیں جن پر پچھلے ہفتے فائرنگ کی گئی بارڈر پر ملبہ بھارت نے کشمیر میں جانے نہیں دیا آج تک۔امریکہ کے بھارت سے تازہ دفاعی اوردیگر معاہدے اور اسلحہ کی ترسیل چین بھارت تبت میں جھڑپ کے بعد جب 1961میں چین بھارت جھڑپ اور بھارتی فوج کی دھنائی اور پھر امریکی امداد کی بھرمار ۔ایوب خان کو کہا گیا کشمیر کو کچھ نہ کرنا ہم فیصلہ کروادیں گے مگر کچھ نہ ہوا اورہم پھر 1965میں نرغے میں آگئے امریکہ نے امداد پاکستان کی بند کی ۔Seato،Centoسمیت معاہدوں کے باوجود حتیٰ کہ 1971سانحہ اور ہماری بے بسی اور سقوط ڈھاکہ سب کے سامنے ہے نہ کوئی غور ہوا نہ احتساب اتنے بڑے واقع پر ۔اس کے بعد آج تک اقتدار اور مفادات کی جنگ ہی قوم نے دیکھی ۔سعودی عرب اور عرب امارات بحرین مراکش سمیت امریکی اسرائیلی گہرے رشتے اور بھارتی نرنیدر مودی اور جرنیلوں کی آو بھگت اور پاکستان کے کارکنوں کے ویزوں پر پابندی کیا ہماری معاشی اور مالی طور گلہ دبانے کے مترادف نہیں ۔وزیر خارجہ کا بے وقعت تازہ دورہ اس کا ثبوت ہے سوچیں ۔عوام کل بھی بے بس تھی اور آج بھی ہیں ۔دو روز قبل 25دسمبر 2020تھا اور 17دسمبر2020ہے ۔چند لوگوں کے بیانات نظر سے گذرے آج بھی یہی صورت تھی قومیں اہم دنوں چاہے وہ خوشی کے ہوں یا دکھ کے ہمیشہ یاد رکھتی ہیںاور خوشی کو Celebrateاورمشکلات کو یاد کرتے بہتری کے راستے اور خوداحتسابی کے عمل کو اجاگر کرتی ہیں ۔آج کیوں نہ ہم عہد کریں کہ سب ادارے اور سیاسی اور غیر سیاسی افراد اور پارٹیاں ملکی مفاد اور درپیش خطرات کا جائزہ لے کر دیانت داری سے ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے اور عام آدمی کے مسائل کو حل کرنے اور بین الاقوامی سطح پر نئی صف بندیوں پر نظر رکھتے ہوئے ملکی استحکام اور ترقی پر غور کریں گے ۔ویسے ہمارے بیشتر اہم افراد اور اداروں کا رویہ جس قدر عوامی اور ملکی مفادات کے تابع ہونا چاہیے نہیں رہا تاریخ گواہ ہے ہر دور کی سیاست میں آغاز سے ہی اقتدار کے لیے بندر بانٹ سول ملٹری بیوروکریسی سیاستدانوں اور جاگیرداروں میں شروع ہوگئی عدلیہ نے بھی اپنا حصہ ڈالا ایوب یحییٰ حزب اختلاف بھٹو ضیاالحق گفت و شنید پرویز مشرف، نواز شریف ،آصف زرداری NAB،اور باہمی معاہدے ہوئے عوام کو کچھ نہ ملا ۔کیا واقعی ہم نے قائداعظم کے مطابق خود کو پاکستان کا اہل ثابت کیا آج تک ؟تو پھر Gone with the windکا تقرر فکر و عمل سے نکال کر آج ہی کمربستہ ہوجائیں ۔رسول اکرم ؐکا فرمان عالی شان ہے "میری امت میں اختلاف رائے باعث رحمت ہے"۔انفرادی گھٹن اگر ملکی سطح پر گھر کر جائے وسیت یونین کا حشر اور امریکہ میں سیاہ فام اور ایشائی باشندوں کا Reactonدنیا کے سامنے ہے ۔سوچ لیں Late is better than neverاہم قومی دن کو یاد رکھیں۔