سکھاں دی روٹی

آج بابا کرمو سے ملاقات ہوئی توآپ بڑے سنجیدگی سے وہ اپنے دوست کی گپ شپ سن رہے تھے۔ بابا کرمو نے میرا اور اپنے دوست کا تعارف کرایا ۔ بتایا کہ میرا یہ بچپن کا یار حال ہی امریکہ سے آیا ہے ۔ انکے آنے سے قبل ہم ملکی موجودہ صورتحال پر ڈسکس کر رہے تھے۔ بابا کرمو نے کہا میرا اپنے دوست سے سوال ہے کہ کیا پی ڈی ایم نے یہ اتحاد خود بنایا یا کسی کے کہنے پر؟ اس سوال کے جواب میں دوست کا کہنا تھا کہ ماضی بتاتا ہے کہ ہمارے ہاں ہر کام ہر لیڈر ،ہر حکمران واشنگٹن اور پنڈی کے اشاروں سے بنتا ہے اور اقتدار میں آتاہے ۔اب بھی ایسا ہی ہو گا ؟ ٹرمپ نے جو کچھ شروع کر رکھا ہے ۔اس کا اثر ہماری سیاست پر بھی دیکھا جا سکتا ہے کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ بڑے بڑے جلسوں کے بعد چھوٹی چھوٹی جلسیاں کی جائیں ۔ یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ جہاں سے انہیں سگنل ملتے تھے وہ اب خراب ہیں ۔یہ ظاہر کرتا ہے کہ انہیں واشنگٹن کی پشت پناہی حا صل ہے ۔ کیوں کہ ماضی میں ان کی پشت پناہی سے دھرنے ہوئے ۔ عدالتی فیصلوں سے حکمران پھانسی چڑھے ، اقتدار سے قامہ پر اتار ے گئے ۔شہید کئے گئے ، طیارے فضا میں تحلیل کر دئے گئے۔ ہر اقتدار میں آنے والے حکمران کا کام پہلے والے حکمران پر کیچڑ اچھالنا ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ حکمران عوام کی بہتری کیلئے چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتے ۔ مہنگائی کا سوئچ آن کے ہاتھ ہوتا ہے جو انہیں لاتے ہیں ۔جو حکمران اپنے مرضی کر تے ہیں ان کا انجام سب کے سامنے ہے یہی حکمران اپنی ماں اپنے باپ کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں نہیں اتار سکتے۔ملک میں زندگی بسر نہیں کرسکتے؟ نہ ہی اجازت کے بغیر اپنے ملک میں کوئی سابق حکمران اپنوں کے جنازوں میں شرکت کر سکتا ہے۔ نہ ہی کسی عزیز کو دفنا سکتا ہے۔ یہ ان سب کیلئے لمحہ فکر ہے۔ ماضی میں میاں نواز شریف اپنے والد گرامی کو لحد میں نہیں اتار سکے تھے اور آج سابق صدر پرویز مشرف
کے ساتھ ایسا ہی ہورہا ہے ۔ وہ بھی اپنی ماں کو یہاں دفنا نہیں سکے ۔ہمارے ہاں سچ اور جھوٹ میں تمیز نہیں رہی ۔ اگر تمیز رہتی تو ملک میں جلسے دھرنے لانگ مارچ نہ ہوتے ۔پوچھا سمجھا نہیں۔کہا اس ملک کی دس جماعتیں جلسے جلوس مل کر کر رہی ہیں ۔ لانگ مارچ اور دھرنوں کا سوچ رہے ہیں ۔اس لئے کہ وہ سب کہہ رہے ہیں کہ ہمارے الیکشن آزاد نہیں ہوتے ۔ ایسا اسٹیلشمنٹ کی وجہ سے ہے ۔ کتابوں ، ٹاک شو میں ،اسٹیبلیشمنٹ کے اپنے بندے اور سیاست دان سبھی مانتے ہیں کہ ایسا ہی ہے اور سچ بھی یہی ہے۔ اب میڈیا نے سب کچھ دکھا بھی دیا ہے بتا بھی دیا ہے کہ ایسا ہی ہے۔اگر یہ مان لیا جائے تو نہ کوئی جلوس نکالے ، نہ جلسے کرے ،نہ کوئی لانگ مارچ ہو ، نہ کوئی دھرنے دے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سب ایک ٹیبل پربیٹھیں اور اپنے فیصلے خود کرنا سیکھیں اور وعدہ کریں کہ آئندہ سیاستدانوں سمیت تمام ادارے قانون اور آئین کے مطابق چلائے جائیں گے ۔ اس کے بعدفیئر اور فری الیکشن کرا د ئے جائیں۔ بابا کرمو نے کہا اگر اس ملک سے کسی کو پیار ہے تو پھر تمام اداروں کو اس آئین کے مطابق کام کرنا ہو گا ۔اس کے علاوہ اس ملک کی بہتری کیلئے کوئی دوسراراستہ نہیں۔بابا کرمو کے دوست نے کہا ابھی چونکہ واشنگٹن والوں کا اپنا منظر نامہ بدل رہا ہے۔جب تک ان کے منظر نامہ کلیئر نہیں ہو جاتا ۔ اس وقت تک ہمارے ہاں ضمنی الیکشن بھی ہونگے ، سینٹ کے الیکشن بھی ہونگے اور سب جماعتیں ان میں حصہ بھی لیں گیں ۔ اس کے لئے تھوڑا مزید وقت لگ سکتا ہے ۔ بابا کرمو نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا جناب اس ڈبے میں کیا لائے ہو ۔بتایا اس میں ہوم میڈ گڑ ہے ۔یہ گڑ میرے دوست شفقت عباس تارڑ ایڈووکیٹ نے سپیشل گھر سے بنوا کر بجھوایا ہے ۔ یہ گڑ اچھا لگا لہذا تھوڑا آپ کیلئے لایا ہوں ۔ بابا کرمو نے کہا گڑ کی خوشبو بتا رہی ہے کہ واقعی سپیشل اور خالص گڑ ہے۔ پھر ہم نے اس گڑ کا استعما ل کرتے ہوئے اسکے چاول کھائے اور چائے پی اورہر چسکی پر اس زمانے کو یاد کیا جب ہر چیز خالص ہوا کرتی تھی۔ بابا کرمو نے کہا چینی نہ صرف مہنگی ہے بلکہ کیمکل سے بنا کر زہر کھلایا جا رہا ہے ۔ کیا زمانہ تھا جب ہر کوئی راشی اور جھوٹوں سے نفرت کیا کرتا تھا ۔ بابا کرمو نے اپنے دوست سے پوچھا کیا بچپن یاد ہے ۔کہا کیوں نہیں ؟اپنے بچپن کا ذکر کرتے ہوئے پہلے لمبی سانس لی پھر بتانا شروع کیا کہ صبح نماز کیلئے اٹھا تے وقت چھترول ، مسجد میںقرآن پڑھنے جاتے تو چھترول ، ناشتے پر چھترول ، سکول جانے سے پہلے چھترول ،سکول وقت پر نہ پہنچنے پر چھترول ،کلاس میں ہر ٹیچر کے ہر مضمون پر چھترول ، سکول سے واپسی پرکپڑے گندھے کرنے پر چھترول ، دوپہر کے کھانے پر اور شام کی چائے پر چھترول ، ہر بات پر رونا ،اس پر بھی چھترول ، رات دیر سے سونا چھترول ، ہم سمجھتے تھے کہ چھترول بلکہ یوں لگتا تھا کہ چھترول زندگی کا حصہ تھا ۔ اتنی مار کھانے کے باوجود ان سب کیلئے ہمارے دلوں میں احترام محبت میں کبھی کمی نہیں آئی۔ کہا آج کی ماں اپنے بچوں کو کھانے پینے کی آپشن دیتی ہے ۔بچوں سے پوچھتی ہے اگرکھانا نہیں کھانا تو پیزا کھا لو، میگی کھا لو، پاستہ کھا لو، ڈبل روٹی پر جام لگا لو۔ جب کہ ایسا ہمارے دور میں نہیں تھا۔کہا ہم سے ماں پوچھتی تھی کہ سبزی کھانی ہے یا چھتر؟انکار کرنے پر ہم پہلے چھتر کھاتے پھر سبزی کھا لیا کرتے تھے ۔ بابا کرمو نے کہا ہمارے زمانے میں جھوٹ بہت کم بولا جاتا تھا۔ آج لگتا ہے جھوٹ اگر نہ بولا تو روٹی ہضم نہیں ہو گی۔رشوت نہ لی تو نیند نہیں آئے گی ۔ہمارے زمانے میں عزت کا خیال رکھا جاتا تھا مگر اب عزت کا نہیں پیسے کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ ہمارے زمانے میں سیاست خدمت کا نام تھا ۔آج سیاست پیسے بنانے جائدادیں بنانے گالیاں دینے اور کھانے کا نام ہے ۔ ابھی جھوٹ بولنے پر کھلی چھٹی ہے جس کا جتنا جی چاہے جھوٹ بولتا ہے ۔بابا کرمو نے آخر میں ایک بار پھر پھر گڑ کی چائے پلائی اور اپنی سریلی آواز میں کلام سنایا
سکھاں دی روٹی دکھا دا سالن
آہ دا دیوا بال نی
مائے نی میں کنو آ کھاں
درد وچوڑے دا حال نی سنا یا