والد مرحوم(محمد دلشاد لودھی) سے وابستہ یادیں
میرے والد ( محمد دلشاد خاں لودھی ) 1928ء کو بھارت کے شہر فیروز پور کے نواحی قصبے کاسو بیگو میں پیدا ہوئے ، جہاں ان کے والد جان خیردین خان لودھی کیبن مین کی حیثیت سے تعینات تھے ۔ ابتدائی تعلیم فرید کوٹ شہر کے سکول میں حاصل کی ۔1944ء میں میرے والد کی شادی اپنی خالہ زاد (یعنی میری والدہ ہدایت بیگم ) سے فرید کوٹ میں انجام پائی ۔شادی کے بعد وہ ریلوے میں کلینر کی حیثیت سے ملازم ہوگئے ان کی پہلی تعیناتی بہاولنگر ریلوے سٹیشن پر ہوئی ۔قیام پاکستان کے بعد فیروزپورسے ہجرت کرکے وہ اپنے خاندان سمیت قصورشہر میں آ بسے ۔جہاں میرے دادا پہلے ہی پاکستان ریلوے میں کیبن مین کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے ۔ 25دسمبر 1954ء کو میری پیدائش کوٹ مراد خاں قصور میں ہوئی ۔حسن اتفاق سے اسی دن میرے والد کو پاکستان ریلوے میں کانٹے والا کی حیثیت سے ملازمت مل گئی ۔ان کی پہلی تعیناتی قلعہ ستار شاہ میں ہوئی۔ والدصاحب نے اپنا تبادلہ واں رادھا رام (حبیب آباد) کروا لیا جہاں کے ایک پرائمری سکول میں مجھے داخل کروا دیا گیا ۔جب بھی سکول میں امتحان کا وقت آتا تو والد صاحب سکول کی کچی دیوار کے اس پار کھڑے مجھے اپنا خوبصورت چہرہ دکھاتے رہتے، کچی، پکی، پہلی، دوجی تک میں پاس ہوتاچلاگیا لیکن تیسری جماعت کے امتحان کا جب وقت آیا تو والد صاحب ڈیوٹی کی وجہ سے سکول کی کچی دیوار کے اس پار کھڑے نہ ہوسکے ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں فیل ہوگیا جب میرے فیل ہونے کی خبر والد صاحب تک پہنچی تو وہ مجھے پکڑکر سکول لے آئے اورماسٹر سے کہا میرے بیٹے کا امتحان میرے سامنے لیں ۔میرا یہ بیٹا فیل نہیں ہوسکتا۔ہیڈ ماسٹرابراہیم صاحب کے حکم پر ماسٹر صاحب مجھ سے زبانی سوالات کرنے لگے ، میں سوال سن کر اپنے والد کے چہرے کو دیکھتا اور ٹھیک جواب دے دیتا ۔چنانچہ میں پاس ہوگیا ۔ہیڈ ماسٹر صاحب کے یہ الفاظ آج بھی مجھے یاد ہیں انہوں نے کہا"یہ بچہ اپنے والد سے اتنا پیار کرتا ہے کہ اسے والد کا چہرہ دیکھ کر بھولا ہوا سبق بھی یاد آجاتا ہے،یہ باپ کے بغیر کیسے زندگی گزارے گا۔"ہمارے گھر میںغربت اس قدر تھی کہ مجھ سمیت دونوں بڑے بھائی ، سکول ٹائم کے بعد ریلوے پھاٹک پر مالٹے،امرود، شہتوت اور سگریٹ فروخت کرنے جایا کرتے تھے ،شام ہونے سے پہلے گھر کا چولہا جلانے کے لیے جنگل میں اگی ہوئی جھاڑیاں کاٹ کر لانا اور ہتھ چکی پر والدہ کے ساتھ آٹا پیسنا میری ذمہ داری میں شامل تھا۔والد صاحب ہرشام کونڈی میں ثابت مرچوں کو پیس کر ہانڈی میںڈالنے کے قابل بناتے۔اس زمانے میں آگ جلانا بھی کسی معرکے سے کم نہیں تھا۔والد صاحب کی تنخواہ 80 روپے تھی جس میں مشکل سے گزارا ہوتا۔نئے کپڑے اور نئے جوتے سال میں ایک ہی بار ملتے وگرنہ سارا سال ملیشئے کے کپڑے پہن کر گزارا کرتے۔پانچویں جماعت میں نے لاہور آکر پاس کی ۔بعد ازاں گلبرگ ہائی سکول لاہور کینٹ میں داخلہ لے لیا اور یہاں سے 1971میں میٹرک کا امتحان پاس کرلیا۔1988ء میں والد صاحب ریلوے کی ملازمت سے بطور یارڈ ماسٹر ریٹائر ہوئے اور 19جنوری 1994ء کی صبح اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اللہ میرے عظیم والد کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے۔آمین کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ باپ دھوپ میں اور ماں چولہے پر جلتی ہے تو اولاد پلتی ہے ۔ محسن پاکستان اور ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر کی یہ بات مجھے نہیں بھولتی کہ ہمیں کسی بات پر جب ماں ڈانٹتی تو ہم باپ کی آغوش میں پناہ لیتے تھے۔میرا بھی کچھ یہی حال تھا اس کے باوجود میرے والد بہت سخت مزاج تھے ،جب کبھی شام ڈھلے لالٹین کی روشنی میں ہمیں پڑھانے بیٹھتے تو غلطی ہوتے ہی ان کا بھاری بھرکم تھپڑ پٹاک سے میری گال پر رسید ہو جاتا۔میں تو رو کر جان چھڑا لیتا لیکن اس تھپڑ پر ماں اور باپ کی باقاعدہ جنگ شروع ہو جاتی ۔اگلی صبح جب میں شیشے میں اپنا چہرہ دیکھتا تو والد کے ہاتھ کی انگلیوں کے نشان میرے گال پر نمایاں نظر آتے ۔میری ناراضگی کو دور کرنے کے لیے والد صاحب مجھے ساتھ لے کر مٹھائی کی دکان پر پہنچ جاتے اور چار آنے کی برفی لے دیتے ۔ انہیں علم تھا کہ برفی مجھے بے حد پسند ہے اس لیے تھپڑ کی قیمت اکثرچار آنے کی برفی ہی ہوتی ۔والد سے میری محبت کا عالم یہ تھا کہ مجھے ان کے بغیر نیند بھی نہیں آتی تھی ۔