غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں

مولانا فضل الرحمن کا یہ کہنا حد سے گزرنا ہے کہ ملک میں غیراعلانیہ مارشل لاء ہے اس لئے عمران خان کی حکومت کو چلتا کرنے کیلئے قوم اسلام آباد کی بجائے راولپنڈی کا رخ کرے۔ مولانا حکومت کو چلتا کرنے کے بعد کونسی حکومت دیکھنا چاہتے ہیں۔ کیا وہ جی ایچ کیو اور عوام کا آمنا سامنا دیکھنا چاہتے ہیں یا کسی بریگیڈ کے منتظر ہیں۔ اپوزیشن کے لانگ مارچ کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ پاک فوج سیاسی معاملات میں مداخلت کرنا چاہتی ہے نہ ہی اسے گھسیٹنا چاہیے۔ فوج کا اصل آئینی کردار ملکی سرحدوں کی حفاظت ہے اور وہ یہ فرض پوری مستعدی سے انجام دے رہی ہے۔ اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ تمام اداروں کو اپنی اپنی آئینی حدود میں اپنا کام کرنا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمن ملک کے داخلی حالات کا جائزہ لیں کہ آخر بھارت‘ ایران یا افغانستان کی بلوچستان میں بڑھتی ہوئی مداخلت کے کیا اسباب ہیں۔ مولانا احتجاج کے طریقے بدلیں‘ جامع قومی ڈائیلاگ کی طرف آئیں۔ حکومت کی ناکامیوں‘ کمزوریوں اور نااہلیوں پر مشتمل چارج شیٹ اسکے حوالے کریں پھر دیکھیں حکومت اپنی اطلاح کی طرف آتی ہے یا نہیں۔ اسے آئینی مدت پوری کرنے کا موقع تو دیں تاکہ آئندہ انتخابی جلسوں میں اسکی نالائقی کا حوالہ دیکر اسے للکار سکیں۔ یوں عوام بھی مولانا کی ہم نوائی کرینگے۔ مولانا یاد رکھیں کہ غیرجمہوری قوتیں بھی جمہوریت کی ٹریک کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گی۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے ہر پانچواں شخص بیروزگاری اور فاقہ کشی کا شکار ہے۔
درآمدات برآمدات سے دگنی ہیں اور ملک کا نظام ترسیلات زر سے چل رہا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک ہمارے دستگیر ہیں۔ 1977ء میں قومی اتحاد کی تحریک کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اسکے بعد مٹانے والے خود بھی مٹ گئے۔ کامیابی اور ناکامی کا دورانیہ چند سال پر ہی مشتمل ہوتا ہے۔ عمران خان بھی 126 دن کے دھرنے کے بعد حکومت گرانے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ مولانا فضل الرحمن سیاسی تاریخ کا ایک ایک باب پڑھے ہوئے ہیں۔ انہیں معلوم ہے راولپنڈی کی طرف کوچ کرنے کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ وزیراعظم نے تبدیلی نہ آنے کی بڑی وجہ ’’مافیا‘‘ قرار دی ہے۔ مافیا کوئی ایک ہو تو گنوایا اور بتایا جائے۔ پہلے پانامہ لیکس‘ اب براڈ شیٹ نے حکمرانوں کی منی لانڈرنگ اور کرپشن بے نقاب کی۔ ایک پاکستانی نے سعودی عرب سے ایک ارب ڈالر برطانیہ بھیجے‘ رشوت جڑوں تک دھنس چکی‘ اشرافیہ کا رہن سہن دیکھ کر نہیں لگتا یہ غریب ملک ہے۔ عمران خان نے ملکی نظام میں کرپشن تسلیم کی ہے‘ پرانے نظام سے ناجائز فائدہ اٹھانے والے لوگ تبدیلی نہیں آنے دیتے۔وزراء وزیراعظم کی باربار تنبیہ کے اثر لیتے دکھائی نہیں دیتے۔ کلرکوں‘ سیکشن افسر اور بیوروکریسی کا چلن جوں کا توں ہے۔ محروں کو ادھر سے ادھر کرنے سے تھانہ کلچر اپنی جگہ سے ذرا نہیں سرکا‘ فائل پیسے کے بغیر نہیں ہلتی۔ اس نظام کو کون بدلے گا۔
براڈ شیٹ کیسز کے حوالے سے حالیہ رپورٹ کے مطابق نیب کی ناکامی کی وجہ سے ملکی خرانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ مختلف حکمرانوں نے نیب قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اس ادارے کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کیا۔ احتساب کا ادارہ خود کسی کو جوابدہ نہیں‘ احتساب کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیوں کیا گیا۔ احتساب عدالتوں میں ریفرنسز کی تعداد 1230 سے زیادہ ہے۔اپوزیشن کے پاس الیکشن میں کچھ نہیں ہوگا۔ پی ڈی ایم کا موقف کمزور ہو چکا ہے‘ مولانا فضل الرحمن کا بیانیہ ایک ہی ہے ’’عمران کو جانا ہی ہے‘ اب اداروں کی بالادستی تسلیم نہیں کرینگے‘ جعلی حکومت کا کوئی نظریہ نہیں‘ عوام کی بالادستی ہوگی اور انکی مرضی کی حکومت قائم ہو کر رہے گی‘ ایسی حکومت آئی ہے لوگ کہہ رہے ہیں پرانے چوروں کو واپس لائو تاکہ روٹی تو ملے۔‘‘ مولانا نے تسلیم کرلیا کہ شریف اور زرداری چور تھے اور چور واپس آئیں گے تو لوگوں کو روٹی ملے گی۔ پیپلزپارٹی کسی صورت اسمبلیاں نہیں چھوڑے گی۔ پیپلزپارٹی سندھ میں حکومت کی قربانی نہیں دیگی۔ مولانا کی دکان بیان بازی سے چل رہی ہے۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی ایک پیج پر نہیں ہیں۔ مافیاز دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹ رہے ہیں۔
مولانا‘ عمران خان کے پیچھے پڑے ہیں۔ مافیاز کے خلاف تحریک کا آغاز کیوں نہیں کرتے۔ راولپنڈی کی طرف مارچ اسلام آباد مارچ سے زیادہ مشکل ہے۔ راولپنڈی کی طرف مارچ ٹرپل ون بریگیڈ کو حرکت میں لانے کی بات ہے۔ مولانا اس پر بضد ہیں کہ ہم آئیں نہ آئیں عمران چلا جائے۔ وہ اپنے رویے میں لچک دکھانے کو تیار نہیں۔ ضمنی انتخابات حکومت اور اپوزیشن کی مقبولیت کا امتحان ہونگے۔