پیر ‘ 4؍ جمادی الثانی 1442ھ‘ 18؍ جنوری 2021ء
نویں ، دسویں اور انٹر کلاسوں کا آغاز ہو گیا
آج ایک طویل عرصے بعد سکول اور کالجوں کی رونقیں بحال ہو رہی ہیں۔ طلبہ تو گھر بیٹھے بور ہو رہے تھے۔ نہایت مسرت کے ساتھ اپنے اپنے تعلیمی اداروں کا رخ کر رہے ہیں۔ ان کی خوشی دیدنی ہے۔ جہاں وہ کئی مہینوں بعد اپنے کلاس فیلوز سے ملیں گے۔ دوستوں سے ملاقات ہو گی۔ یوں تعلیمی سرگرمیاں پھر بحال ہونے سے اساتذہ بھی خوش ہیں کہ خاص طور پر نجی سکولز اور کالجز کے اساتذہ جن کی تنخواہیں ان کے مالکان روکے ہوئے تھے اب سکولز اور کالجز کھلنے کے بعد ان کے روزگار کا سلسلہ پھر بحال ہو گا اور وہ
تختی پہ تختی تختی پہ تل کا دانہ
کھیلو جی بھر کے کل پھر سکول آنا ہے
کی نظم بچوں کو سنائیں گے۔ بچے تو گھر بیٹھے بیٹھے جو بور ہوئے سو ہوئے اس سے زیادہ صبر آزما لمحات اور وقت گھر والوں نے بھی گزارہ ، بچوں کو قابو میں رکھنا کتنا کٹھن کام ہے۔ اب گھر والے بھی اطمینان کا سانس لیں گے۔ چھوٹے بچوں کو سکولوں میں اور بڑے بچوں کو کالجوں میں پڑھائی کا پہلا دن مبارک ہو۔ خدا کرے یہ سلسلہ اب بحال رہے۔ اب سکولز انتظامیہ اور حکومتی اداروں کا فرض ہے کہ تعلیمی اداروں میں حفاظتی اقدامات پر عمل کروائیں ۔ مناسب فاصلہ اور ماسک بہت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہاتھ دھونے کا بھی بندوبست کیا جائے۔ مگر کیا کریں ہمارے ملک میں 66 فیصد سے زیادہ سکولز واش روم کی سہولت سے محروم ہیں۔ وہاں احتیاط کون کرے اور کیا کرے…
٭٭٭٭٭٭
وفاقی کابینہ کے ارکان کی تعداد کم ہو کر 50 رہ گئی
حجم کے لحاظ سے یہ 50 رکنی کابینہ بھی بھاری بھرکم ہے۔ اس سے زیادہ کارکردگی کا اگر موازنہ کیا جائے تو پھر یہ تعداد کافی زیادہ لگتی ہے۔ عوام سے پوچھ لیں وہی سب سے بڑے منصف ہیں خود بتا دیں گے کہ یہ 50 رکنی حکومتی لشکر سوائے خزانے پر بوجھ کے اور کیا کر رہا ہے۔ اتنے وزیروں کے ہوتے ہوئے بھی عوام کے دن تو نہیں البتہ ان لوگوں کے اپنے دن ضرور بدلے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ان کی کابینہ مختصر ہو گی تاکہ وزیروں کے شاہانہ اخراجات کا بوجھ قومی خزانے پر نہ پڑے۔ اب معلوم نہیں یہ 50 رکنی کابینہ مختصر ہے یا مفصل۔ بہرحال ذرا کابینہ کے حالات و واقعات پر نظر ڈالیں تو ایک نیا جہاں آباد نظر آتا ہے۔ الف لیلیٰ یا طلسم ہوشربا ، فسانہ عجائب اور قصہ چہار درویش بھی لوگ بھول سکتے ہیں۔ جی ہاں اس 50 رکنی کابینہ میں 18 غیر منتخب لوگ شامل ہیں۔ 28 وزیر ہیں ان میں سے بھی ایک غیر منتخب شخص ہے۔ اس کے علاوہ 15 معاونین خصوصی ہیں جن میں سے 13 غیر منتخب ہیں۔ وزیر اعظم کے 4 مشیر بھی ہیں جو سب غیر منتخب افراد ہیں۔ معلوم نہیں وزیر اعظم کو غیر منتخب لوگوں پر اتنا اعتماد کیوں ہے کہ وہ عوامی ووٹوں سے جیت کر آنے والوں سے زیادہ ان کو اہمیت دیتے ہیں ۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر انہیں الیکشن میں ٹکٹ کیوں نہ دیئے۔ اب عوام کے ووٹوں سے جیت کر آنے والوں کا کیا قصور کہ اپنی حکومت میں وہ وزیر مشیر اور معاون نہیں بن سکتے یا پھر ہو سکتا ہے غیر منتخب افراد زیادہ اہلیت رکھتے ہوں۔
٭٭٭٭٭٭
پاکستانی 6 ماہ میں 47 ارب کی چائے پی گئے
یہ ہے ہماری ’’ویلی‘‘ قوم کا حال۔ کرونا نے دنیا کی معیشتوں کو برباد کردیا مگر ہم نے چائے پی پی کر غیرملکی چائے کمپنیوں کو کنگال ہونے سے بچالیا ۔ یوں لگتاہے پوری قوم کرونا کے دنوں میں گھر میں فارغ بیٹھ بیٹھ کر چائے ہی پیتی رہی ہے۔ افسوس اس دوران، سنامکی کے قہوے اور سبز قہوے کو بھی تریاق بنا کر پیش کیا گیا مگر وہ اتنی توجہ حاصل نہ کرسکے جتنی چائے کو حاصل رہی۔ 47 ارب روپے ملک سے باہر بھجوانے پر پاکستانی قوم واقعی مبارکباد کی مستحق ہے۔ صرف چائے کا ہی کیا رونا اور بھی غم ہیں زمانے میں اس کے سوا ، یہ منحوس موبائل فون سب سے زیادہ ہماری کمائی پر ڈاکہ ڈالتا ہے۔ ان 6 ماہ میں ارب نہیں، ڈیڑھ کھرب کے موبائل فونز درآمد کئے گئے۔ ذرا غور کریں ہمارے ڈیڑھ کھرب روپے موبائل کمپنیوں کے غیرملکی مالکان کھا گئے۔ یہ ہے ایک غریب قوم کا حال جو ہر وقت مہنگائی مہنگائی کا رونا روتی ہے اور ان کی عیاشیاں دیکھ کر کون یقین کرے گا کہ یہ وہ قوم ہے جو ہاتھ میںخیرات کا کشکول تھامے عالمی برادری سے، عالمی اداروں سے امداد کی بھیک مانگتی پھرتی ہے۔ اب یا تو حکومت چائے اور موبائل کی غیرممالک سے درآمد بند کرے یا پھر ملکی سطح پر جس طرح دنیا بھر کی اقوام کرتی ہیں موبائل فونز تیار کرے اور چائے کی کاشت کا بندوبست کرے۔ حیرت کی بات ہے چائے کا کپ 30 روپے تک ہوچکا ہے مگر یہ مانگنے والے فقیر پھر بھی پی رہے ہیں دھڑا دھڑ پی رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
چنیوٹ میں شو سے روکنے پر خواجہ سرائوں کا پولیس پر حملہ
صرف حملہ ہی نہیں ہوا، پولیس والوں کو مارا پیٹا بھی گیا یعنی پولیس والوں کی خواجہ سرائوں کے ہاتھوں دھنائی بھی خوب ہوئی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ لوگوں کی چیخیں نکلوانے والے پولیس والے بچائو بچائو کی دہائیاں دیتے رہے مگر لگتا ہے عوام کی بڑی تعداد نے یہ منظر دیکھ کر کسی قسم کی مداخلت نہیں کی اور خاموشی سے پولیس والوں کے پٹنے کا تماشہ دیکھتے رہے۔بعد میں جب خواجہ سرائوں کا کلیجہ اور عوام کا دل ٹھنڈا ہوا تو یہ معاملہ رفع دفع کرایا گیا۔ کیا معلوم پولیس والوں نے معمولی ہاتھاپائی کو جان بوجھ کر بڑھا چڑھا کر خبر چلوائی ہو۔ تاکہ ان پر ہاتھ اٹھانے والے خواجہ سرائوں کیخلاف پرچہ مضبوط ہو۔ ورنہ یہ خواجہ سرا بھلا کسی کو کیا زدوکوب کریں گے۔ ان پر آئے روز عام لوگ بدمعاش اور تماش بین ہی ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ بہرحال اب دیکھنا ہے پولیس افسر ان سے حکومتی احکامات کے مطابق حسن سلوک کا مظاہرہ کرتے ہیں یا انہیں اپنے پیٹی بھائیوں پہ ہاتھ اٹھانے کی کڑی سزا دیتے ہیں۔ ویسے یہ معاملہ اب ختم ہونا چاہئے کیونکہ پولیس والوں نے بھی مار پیٹ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہوگی۔ یہ حقیقت سب جانتے ہیں…