سچ یہ ہے کہ غریب بھوکا مر رہا ہے، سچ یہ ہے کہ کمزور پاکستانی جھولیاں اٹھا اٹھا کر حکومت کو بددعائیں دے رہا ہے، سچ یہ ہے کہ بیروزگار کا چولہا بند ہو گیا ہے، سچ یہ ہے کہ لوگ حکومت سے تنگ آ چکے ہیں، سچ یہ ہے کہ زندگی مشکل تر ہوتی جا رہی ہے، سچ یہ ہے کہ تعلیم کا حصول خواب بن گیا ہے، سچ یہ ہے کہ سستے پٹرول کا حصول خواب ہے، سچ یہ ہے سستی ادویات خریدنا ممکن نہیں رہا، سچ یہ ہے اشیاء خوردونوش کی قیمتوں پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے، سچ یہ ہے کہ آٹے کی قیمتوں پر قابو پانا حکومت کے بس میں نہیں رہا، سچ یہ ہے کہ سستی روٹی غریب پاکستانی کے بس سے باہر ہو چکی ہے، سچ یہ ہے کہ غربت میں اضافہ ہوا ہے، سچ یہ ہے کہ تمام بڑے بڑے سروے چیخ چیخ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ ستر فیصد پاکستانیوں کا مسئلہ غربت اور مہنگائی ہے، سچ یہ ہے کہ حکومت عام آدمی کو ریلیف دینے میں ناکام نظر آتی ہے، سچ یہ ہے کہ وزیراعظم کی ٹیم ڈیلیور کرنے میں ناکام نظر آتی ہے، سچ یہ ہے کہ وزیراعظم اپنی نالائق و نااہل ٹیم کے بارے کوئی بات سننا نہیں چاہتے، سچ یہ ہے کہ وزیراعظم دوسروں کے بارے سچ بولنا چاہتے ہیں لیکن اپنے بارے کچھ سننا نہیں چاہتے، سچ یہ ہے کہ وزیراعظم تک رسائی ممکن نہیں رہی، سچ یہ ہے کہ وہ تعمیری کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرنا چاہتے، سچ یہ ہے کہ عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے عملی کام نہ ہونے کے برابر ہے، سچ یہ ہے کہ فواد چودھری نے بھی عوام کی نمائندگی کی ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہم نے چار اکتوبر دو ہزار انیس کو پاکستان کے عوام کا مقدمہ ایوان وزیراعظم کے عارضی مکین کے حضور پیش کیا، انہیں بتایا کہ عوام حکومت سے تنگ ہیں اور وزراء کی موت کی دعائیں کر رہے ہیں۔ اس حقیقت پر کان دھرنے کے بجائے خود وزیراعظم اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار زیادہ ناراض ہوئے۔ یہ ہے تبدیل شدہ پاکستان، یہ ہے تحریک انصاف کا پاکستان۔ہمارے مقدمے کو کئی ماہ گذرنے کے بعد آج وفاقی کابینہ کے اہم رکن فواد چودھری نے بھی وہی باتیں دہرائی ہیں جو چار اکتوبر کو ہم نے وزیراعظم کے سامنے رکھی تھیں۔
ہم نے پنجاب میں پرائس کنٹرول کمیٹی، اشیاء خوردونوش کی مناسب قیمتوں پر بلاتعطل فراہمی کے لیے جو اقدامات اٹھائے تھے ان سے براہ راست فائدہ عوام کو ہونا تھا لیکن اس کار خیر کا حصہ بننے، ساتھ دینے اور مسائل حل کرنے کے بجائے دیواریں کھڑی کی گئیں اور آج نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ جناب وزیراعظم عوامی خدمت کے لیے صرف جذبے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جذبہ تو ڈاکوؤں میں بھی ہوتا ہے وہ لوٹ مار کرتے اور چلے جاتے ہیں، نہ ہی سب کام ایگزیکٹو آرڈر اور انتظامیہ سے چلائے جا سکتے ہیں۔ عوامی فلاح کے منصوبوں کو کامیاب بنانے کے لیے خلوص نیت اور مسلسل محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جناب وزیراعظم یہ درست ہے کہ نوے فیصد ریونیو قرضوں کی ادائیگی میں چلے جاتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں کہ عوام سے جینے اور سانس لینے کا حق ہی چھین لیا جائے۔ غربت اور مہنگائی کو نظر انداز کر کے قرضوں میں کمی کا فارمولا ایسے ہے لاشوں پر محل تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب آپ نے ڈیویلپمنٹ فنڈز روکے ہیں تو یہ پیسہ عوام کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے خرچ کیوں نہیں ہو سکتا۔ پنجاب کے تین سو پچاس ارب روپے کے بجٹ میں صرف ستتر ارب جاری کیے گئے ہیں کیا باقی پیسے عام آدمی کی زندگی آسان بنانے کے لیے خرچ نہیں ہو سکتے تھے۔ ترقیاتی کام اگلے سال پر رکھے جا سکتے ہیں لیکن غریبوں کے لیے روٹی اگلے سال تک نہیں روکی جا سکتی۔
آج آٹا مہنگا ہو گیا ہے اور یہی صورتحال رہی تو پٹرول کی قیمت پر آٹا فروخت ہو گا اور پھر کسی کے پاس کچھ نہیں بچے گا، جس نے جو جمع کر رکھا ہے سب تباہ ہو جائے گا۔ انہی صفحات پر ہم نے چینی کی قیمت میں اضافے کے وقت فیصلہ سازوں کو خبردار کیا تھا کہ آنے والے وقت میں حکومت کو آٹے کے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کسی نے توجہ نہیں دی اور آٹے کی قیمت میں ایسا اضافہ ہوا ہے جیسے یہ کوئی امپورٹڈ آئٹم ہے۔ جب اتنی بنیادی چیز کی قیمت پر حکومت قابو پانے میں ناکام ہے تو پھر باقی شعبوں کا کیا حال ہو گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
فواد چودھری کہتے ہیں کہ پنجاب کسی طرف سے بھی ڈیلیور نہیں کر رہا، نہ ہی سیاسی سائیڈ سے نتائج آ رہے ہیں اور نہ ہی انتظامی طرف سے۔ پنجاب کے ڈیلیور نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کو مجموعی طور پر دباؤ کا سامنا ہے۔ پنجاب کی وجہ سے مرکز کو بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
وفاقی وزیرسائنس ا ینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اہم معاملات پر نوٹس لینے کی اپیل کر دی ہے۔فوادچوہدری نے خط میں آئین کے آرٹیکل 140 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہر صوبہ آرٹیکل ایک سو چالیس اے کے تحت لوکل گورنمنٹ سسٹم، سیاسی ،انتظامی اورمالی ذمہ داریاں مقامی حکومتوں کومنتقل کرنے کا پابند ہے۔صوبے مسلسل آئین کے آرٹیکل 140 کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔اضلاع کی سطح پر فنڈز کی منتقلی نہیں کی جارہی،پنجاب میں شہبازشریف نے اپنے دور حکومت میں صوبائی فنانس کمیشن ایوارڈ نہیں دیا،شہبازشریف کے دور میں آرٹیکل 140 کی بھر پور خلاف ورزی کی گئی۔بدقسمتی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے بھی صوبائی فنانس کمیشن ایوارڈ کاابھی تک اعلان نہیں کیا۔آرٹیکل 140 پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث اضلاع کو انکا صحیح شیئر نہیں مل
رہا۔ اس باعث ضلعی سطح پر مسائل بڑھ رہے ہیں، عمران خان صاحب آپ ہمیشہ سے مضبوط لوکل گورنمنٹ سسٹم پر زور دیتے رہے ہیں ، مگر یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک صوبائی فنانس کمیشن ایوارڈ کااجرا نہیں ہوگا۔آپ سے گزارش ہے کہ آرٹیکل 140 کی خلاف ورزی کانوٹس لیں۔ وزیراعظم صاحب آ پ صوبوں ،بالخصوص پنجاب کو صوبائی فنانس کمیشن ایوارڈ کے اجرا کا حکم دیں۔
جناب وزیراعظم آپ کی نیت پر کوئی شک نہیں ہے لیکن آپکی ٹیم عوامی مسائل حل کرنے اور توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہی ہے۔ مسائل بڑھتے جا رہے ہیں اور ان کے حل کے لیے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ عام آدمی سے سانس لینے اور جینے کا حق مت چھینیں، اپنے وزراء سے کہیں کہ عوامی مسائل حل کرنے کے لیے آرام دہ کمروں سے باہر نکلیں۔ جس کام کے لیے عوام سے ووٹ لیا ہے وہ کام کریں۔ ملک میں ہر وہ جگہ جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے وہاں عوامی غیض و غضب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عوام کے صبر کی کوئی حد ہے اس سے پہلے کے سب کا احتساب سڑکوں چوراہوں پر ہونا شروع ہو جائے۔ باہر نکلیں، حقیقت کا سامنا کریں، سچ بولیں اور حقیقت کا سامنا کریں۔ مل مالکان اور بڑے بڑے سرمایہ داروں کے علاوہ بھی ملک کی خدمت کا جذبہ رکھنے اور کام کرنے والے بہت ہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024