زکوٰۃ اداکرنے کے آداب(۱)
زکوٰۃ حقیقت میں اس وقت اجر وثواب کا موجب ہوتی ہے جب اسے ان جذبات اوراحساسات کے ساتھ ادا کیا جائے جن کا تقاضا قرآن وسنت نے کیا ہے۔زکوٰۃ کے کچھ ظاہری اورباطنی آداب ہیں ،جب وہ پائے جائیں تو زکوٰۃ کے حقیقی فوائد وثمرات حاصل ہوسکتے ہیں جبکہ ان آداب کے بغیر زکوٰۃ بے روح جسم یا بے خوشبو پھول کی مانند ہوتی ہے جو نظر تو آتا ہے لیکن اس میں ماحول کو معطر کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔زکوٰۃ کے چند آداب ملاحظہ ہوں۔
حسن نیت :کوئی بھی نیک عمل وہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو اس کی بجا آوری کتنی ہی مشکل کیوں نہ ہو جب نیت میں رضائے الٰہی کے علاوہ کوئی بھی اورغرض شامل ہوجائے تو وہ عمل باطل ہو جاتا ہے زکوٰۃ اداکرتے وقت بھی سوائے اللہ رب العزت کی رضا اورخوشنودی کے اورکوئی مقصود نہ ہونا چاہیے ۔ ارشاد ہے:’’تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو اسی لیے تو کرتے ہو کہ تمہیں خدا کی خوشنودی حاصل ہوجائے‘‘۔(بقرہ : ۲۷۲)
اخلاص نیت سے خرچ کیا ہوا مال اگرچہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے اس کا اجر وثواب بہت بڑھا دیتا ہے وہ تو خلوص نیت سے صدقہ کی گئی ایک کھجور کو احد پہاڑ کے برابر کردیتا ہے۔ قرآن مجید میں حسن نیت سے کیے گئے صدقہ کے اجروثواب کو اس خوبصورت تمثیل سے بیان کیا گیا:’’اوران لوگوں کے عمل کی مثال جو اپنے مال اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اوراپنے دلوں کو ثابت رکھنے کیلئے خرچ کرتے ہیں اس باغ کی مانند ہے جو بلندی پر واقع ہو اس پر بارش ہوگئی تو دوگنا پھل لایا اوراگر بارش نہ ہوئی تو شبنم ہی کافی ہے اوراللہ تمہارے اعمال کو بخوبی دیکھ رہا ہے۔‘‘(بقرہ : ۲۶۵)یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا کے طالب بن کے اگر صدقہ وخیرات زیادہ کیا تو کیا کہنے اوراگر زیادہ نہ بھی ہوسکا تو اللہ تعالیٰ اسے ہی اس کے لیے کافی کردے گا۔
ریاکاری سے مکمل اجتناب :یہ حسن نیت کامنطقی نتیجہ ہے، ریاکاری ایک ایسی بیماری ہے جو اعلیٰ سے اعلیٰ عمل کو بھی خاک میں ملادیتی ہے اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس عمل کی ذرہ برابر بھی قدروقیمت نہیں رہتی جس میں نمودونمائش کا جذبہ شامل ہوجائے ایک روایت کے مطابق جس نے نمودونمائش کرتے ہوئے کوئی بھی عمل کیا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا جس کو دکھانے کیلئے عمل کیا تھا اس کا اجروثواب بھی اسی سے لے۔ بروز حشر وہ آدمی عرش الٰہی کے سایہ میں ہوگا جس نے اس طرح چھپا کر صدقہ کیا ہوگا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہوگی کہ دائیں نے کیا صدقہ کیا تھا۔قرآن مجید میں ریاکارانہ صدقہ کی تمثیل یوں بیان کی گئی: ’’اس کے صدقہ کی مثال ایسے ہے جیسے ایک چٹان پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی ۔جب اس پر زور کا مینہ برسا تو ساری مٹی بہہ گئی اورصاف چٹان کی چٹان رہ گئی ان کی کمائی میں سے ان کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا اوراللہ تعالیٰ نا شکروں کو سیدھی راہ نہیں دکھاتا۔‘‘ (البقرہ: ۲۶۴: روحِ عبادت)