ہفتہ‘ 22؍ جمادی الاول 1441ھ ‘ 18؍ جنوری2020 ء
تحریک انصاف کور کمیٹی نے ’’ان ہائوس تبدیلی‘‘ کاامکان مسترد کر دیا
وطن عزیز میں ایک ’’سیاسی رواج‘‘ سا بن گیا ہے کہ جب بھی جمہوری حکومت کو آئے ’’جمعہ جمعہ آٹھ دن‘‘ ہی ہوتے ہیں تو ’’تبدیلی‘‘ کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں جن میں جو انتہائی ’’محتاط تبدیلی‘‘ سمجھی جاتی ہے وہ ’’اِن ہائوس‘‘ ہی ہوتی ہے جس کے بارے میں پہلے ’’شوشہ‘‘ چھوڑا جاتا ہے جس پر حامی اس کو نوشتہ دیوار اور مخالف دیوانے کا خواب قرار دیتے ہیں۔ ایسی ہی چہ میگوئیاں اور سرگوشیاں تحریک انصاف کی کور کمیٹی نے مسترد کر دی ہیں لیکن ایسی نوبت ہی کیوں آتی ہے۔
کوئی بھی برسراقتدار پارٹی اپنے سیاسی منشور کے مطابق وعدے وفا کرے تو ’’خواص‘‘ ہی نہیں عوام بھی ’’ان ہائوس تبدیلی‘‘ کے امکان کو مسترد ہی نہیں بلکہ ’’زندہ درگور‘‘ کر دیں گے۔ اس لیے تحریک انصاف کی کور کمیٹی کو چاہئے کہ وہ حکومت کو عوام کے ساتھ ’’بنا‘‘ کر رکھنے کا نہ صرف مشورہ دے بلکہ اس پر عمل بھی کرائے ورنہ ’’امکان‘‘ کے بعد اکثر و بیشتر ’’توقع‘‘ کا لفظ بھی آتا ہے لیکن یہاں تو عوام کو اپنے مسائل میں حکومت اوراپوزیشن ہر دو فریقین کی غالب کے اس شعر جیسی حالت ہی بنی نظر آتی ہے…؎
جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیا کسی سے گلہ کرے کوئی
٭٭٭٭
الیکشن کمشن نے گوشوارے جمع نہ کرانے پر سینٹ اور قومی اسمبلی کے 318 ارکان کی رکنیت معطل کر دی
ارکان پارلیمنٹ کو تو پوری قوم کے لیے مثال اور نمونہ ہونا چاہئے کیونکہ اگر وہ خود ہی قانون پر عمل نہیں کرینگے تو عام آدمی قانون کی کیونکر پرواہ کرے گا۔ بدقسمتی سے ہماری اشرافیہ نے قانون شکنی کو ’’شرف‘‘ کا حصہ بنا لیا ہے۔ الیکشن کمشن کے فیصلے کی زد میں آنے والوں میں وزیر قانون، وزیر مذہبی امور بھی شامل ہیں۔
ارکان پارلیمنٹ کے بارے میں رائے عامہ تو پہلے ہی کچھ ٹھیک نہیں جب ایسی خبریں عوام تک پہنچتی ہیں تو یہ بات مزید پختہ ہو جاتی ہے کہ واقعی ’’دو پاکستان‘‘ ہیں اور قانون صرف عوام کے لیے ہے۔
٭٭٭٭
وزیر اعظم نے فیصل واڈوا کے ٹاک شوز میں شرکت پر پابندی لگا دی
دو تین روز قبل وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل وڈوا اپنے سیاسی حریفوں کوزچ کرنے کے لیے نجی ٹی وی کے ایک پروگرام میں چمکیلا’’بوٹ‘‘ اٹھا کر لے گئے تھے اور وہ ان کے سامنے میز پر ’’سجا‘‘ دیا تھاجس پر دوسرے دونوں سیاسی رہنما پروگرام سے اٹھ کر چلے گئے تھے۔
وفاقی وزیر کی اس حرکت پر ہر طرف سے تاسف و مذمت کا اظہار کیا گیا۔ وزیر اعظم کی طرف سے سخت نوٹس لیا جانا بھی خوش آئند ہے تاکہ سیاست میں رواداری اور تحمل کا عنصر قائم رہے۔ ابھی تو بات ’’بوٹ‘‘ دکھانے تک پہنچتی ہے ورنہ یہاں تو ’’جوتیوں میں دال بٹنا‘‘ بھی عام ہے۔
اقرار کے بندھن ٹوٹ گئے
اس دور میں سب کچھ ممکن جان
بے وجہ عداوت جو نہ کرے
اس شخص کو اپنا محسن جان
٭٭٭٭
ٹینک اور جے ایف 17 خود بنا لیتے ہیں، ٹی وی یا فون چارجر نہیں بنا سکتے: فواد چودھری
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے سینٹر آف پاکستان اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز کے زیر اہتمام ’’قومی سلامتی اور ہائی برڈجنگ‘‘ کے موضوع پر خطاب کے دوران گزشتہ روز بھی ہمیشہ کی طرح ’’لاجواب‘‘ اور ’’منفرد‘‘ بات کی۔ اب تک تو ’’منفرد لہجے کا شاعر‘‘ اور ’’صاحب طرز ادیب‘‘ جیسی ادبی اصطلاحات ہی مروجہ تھیں اب ’’منفرد لہجے کا وزیر اور سیاستدان کی اصطلاح بھی پاکستانی ادب و سیاست میں درآئی ہے
پاپوش میں لگائی گرہ آفتاب کی
جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی
زبان سے زیادہ ہاتھ سے کام لینا پہلے ہی فواد چودھری کی پہچان بن چکا ہے اور اسی ’’انفرادی زباندانی‘‘ کی وجہ سے ان کو ’’قبول عام‘‘ کا درجہ حاصل ہے ۔ ویسے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی سے اجتماعی اپیل ہے کہ اس قوم کو ٹینک اور جے ایف 17 ہی بنانے دیں۔ چارجر اور ٹی وی بنانے پرنہ لگائیں ۔
٭٭٭٭
انڈیا کسی بھی جنگ کیلئے تیار ہے‘ بھارتی آرمی چیف کی خوش فہمی
خوش فہمی‘ خود فریبی ہی کی ’’ملفوف صورت‘‘ ہے کہ حقائق کا سامنا کرنے کی بجائے حقائق سے نظریں چرائی جائیں۔ بھارتی آرمی چیف جنرل منوج بھی اپنے حکمرانوں کی طرح خود فریبی کے مرض میں مبتلا ہیں۔ اسی لئے آئے دن کوئی نہ کوئی خود فریبی کی بات کرکے خود ہی اس جال میں پھنس جاتے ہیں۔
بھارتی آرمی چیف اور حکمران ابھی تک حقائق سے نظریں بند کئے ہوئے ہیں۔ کسی بڑھک سے پہلے ’’دامن کو ذرا دیکھ‘‘ کے مصداق گھر کی خبر لیجئے۔ بھارتی فوجی خودکشیاں کررہے ہیں‘ بھارتی عوام اپنے ہی حکمرانوں کیخلاف سینہ تانے کھڑے ہیں‘ مقبوضہ کشمیر میں ظلم اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ ایسے حالات میں ’’جنگوں کی بڑھکیں‘‘ مارنے کی بجائے اندرونی حالات پر توجہ دیں۔ خطے میں امن کیلئے کشمیریوں کو اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے کا موقع دیں۔ ’’محبت فاتح عالم‘‘ کا آفاقی نظریہ اپنائیں اور جنگ کی ’’بڑھک‘‘ سے پہلے برصغیر کی حربی تاریخ کا مطالعہ بھی کریں تو آپ پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جائیگی کہ:
’’لالہ جی! جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی‘‘