اعتدال قرآنی اصول ہے جو انسانی تاریخ میں ہمیشہ کارآمد اور نتیجہ خیز رہا ہے-جو لوگ انتہا پسندی کا راستہ اختیار کرتے ہیں ان کو آخر کار ندامت اور پشیمانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے-تین بار وزیر اعظم منتخب ہونے والے میاں نواز شریف شدت پسندی کی وجہ سے کئی بار پشیمان ہوئے وہ اکثر اوقات اپنے فطری مزاج کی وجہ سے خود اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارتے رہے- جب ان کو پاکستان کی سب سے اعلی عدلیہ نے نااہل قرار دیا تو ان کی شدت پسندی اور انتہا پسندی پر مبنی سوچ چھپ نہ سکی اور انہوں نے "ووٹ کو عزت دو" کے نعرے کی بنیاد پر طاقتور اداروں کے خلاف نظریاتی تحریک اٹھا دی جس کی وجہ سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا گیا - میاں شہباز شریف نے اعتدال پر مبنی سیاست کی وجہ سے اپنے آپشن ہمیشہ کھلے رکھے - وہ طاقتور ریاستی اداروں کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو استعمال کرکے اپنے بڑے بھائی کو جیل سے رہا کرانے اور لندن بھیجنے میں کامیاب ہوگئے- بیک چینل کوششوں کے دوران شریف خاندان نے وعدے کیے کہ وہ اپنے بیانیے کو تبدیل کریں گے اور مزاحمت کی بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کریں گے- پاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع نے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو ایکسپوز کر کے رکھ دیا جو پارلیمنٹ کی بالادستی کے نعرے لگاتی رہیں- جب کھڑے ہونے کا وقت آیا تو یہ نادان سجدے میں گر گئے- مسلم لیگ نون کی قیادت نے نے سروسز ایکٹ میں ترمیم کے سلسلے میں بظاہر غیر مشروط حمایت کا اعلان کر دیا جس سے پارٹی کے نظریاتی کارکن سکتے میں آگئے وہ یہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ ان کی قیادت اس قدر جلد اپنا بیانیہ تبدیل کرلے گی - مسلم لیگ نون کے مرکزی نظریاتی رہنما پرویز رشید نے اپنی مایوسی کا اظہار کچھ اس طرح کیا…؎
تند و تیز ہواؤں سے لڑ کیوں نہیں جاتے
ہم بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے
پی پی پی کے مرکزی رہنماء بیرسٹراعتزاز احسن نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ میاں نواز شریف نے اپنی کرپشن کو بچانے کے لئے اپنی پارٹی کے اسی ووٹ بیچ ڈالے ہیں- مسلم لیگ نون کی قیادت نے پارٹی کارکنوں کے شدید ردعمل کے بعد ڈیمیج کنٹرول کیلئے ایک پالیسی تیار کی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ پارٹی کے کارکنوں کی حوصلہ افزائی کی جائے- ان کو خوشخبری سنا کر موجودہ کیفیت سے باہر نکالا جائے - مسلم لیگ نون کے لیڈروں نے اس پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے اور یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ مسلم لیگ نون عنقریب اقتدار میں آنے والی ہے - مسلم لیگ نون نے یہ پروپیگنڈا بھی شروع کردیا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت چند ماہ کے اندر ختم ہونے والی ہے- مسلم لیگ نون کی موجودہ پالیسی سوچی سمجھی ہے جس کے بارے میں پارٹی کے لیڈروں کو اعتماد میں لیا گیا تھا-اتفاق رائے سے فیصلہ کیا گیا کہ پارٹی کے وسیع تر مفاد میں مزاحمت کو مفاہمت میں تبدیل کیا جائے تاکہ عمران خان کی حکومت کو ختم کیا جا سکے جو اپنی کارکردگی کی بنیاد پر نہیں بلکہ طاقتور ادارے کی سرپرستی کی وجہ سے چل رہی ہے- سینٹ میں چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو دلیل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جب اپوزیشن کی جماعتیں اکثریت کے باوجود ناکام ہوگئی تھیں-اصل حقیقت یہ ہے کہ شریف خاندان کے کم و بیش تمام افراد سنگین مقدمات میں پھنس چکے ہیں- ان کو یہ ادراک ہوچکا ہے کہ وہ مزاحمت کر کے ان مقدمات سے بچ نہیں سکتے- لازم ہے کہ ریاستی اداروں کے ساتھ پیدا ہونے والے فاصلوں کو کم کیا جائے اور مسلم لیگ نون کے لیے پاکستان کی سیاست میں گنجائش پیدا کی جا سکے-
پی پی پی کے نوجوان رہنما بلاول بھٹو زرداری رابطہ عوام کی مہم چلا کر پی پی پی کو مقبول بنانے کی کوششوں میں مصروف تھے جس کے نتائج بھی سامنے آرہے تھے- آصف علی زرداری نے سپہ سالار کی کی مدت ملازمت میں توسیع کے سلسلے میں سروسز ایکٹ کی بلا مشروط تائید اور حمایت کرکے بلاول بھٹو زرداری کی کوششوں کو زک پہنچائی ہے- باوثوق ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو اس ایشو پر ناراض ہوگئے ہیں اور انہوں نے اپنی سیاسی سرگرمیاں معطل کر رکھی ہیں- پی پی پی کے نظریاتی لیڈر اور کارکن خفا اور نالاں ہیں - سینیٹر فرحت اللہ بابر نے پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی پی پی کو اپنی ترامیم واپس نہیں لینی چاہئیں تھیں کیونکہ ان کا فیصلہ پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو نے کیا تھا- ترامیم واپس لینے کا فیصلہ فرد واحد نے کیا ہے جو ایک غیر جمہوری رویہ ہے انہوں نے بتایا کہ پی پی پی نے ایک ترمیم میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ وزیراعظم کو اگر ملازمت میں توسیع کا اختیار دیا جارہا ہے تو انہیں آرمی چیف کو برطرف کرنے کا اختیار بھی حاصل ہونا چاہئیے - سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ سچ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت نہیں ہے- پارٹی کے کارکنوں کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے - چند افراد مل کر فیصلہ کر لیتے ہیں جن کو سب کو تسلیم کرنا پڑتا ہے- پارلیمنٹ کے اندر بھی عوامی رائے کی کوئی ترجمانی نہیں ہوتی بلکہ لیڈر کی خواہشات کے مطابق ہی فیصلے کیے جاتے ہیں - جمہوریت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ہر اہم مسئلہ پر پارلیمنٹ کے اندر کھلی بحث اور مشاورت کے بعد فیصلے کیے جائیں- مگر پاکستان کی جمہوریت میں یہ جمہوری کلچر ختم ہوچکا ہے - سینیٹر فرحت اللہ بابر کو یہ یاد ہونا چاہیے کہ پارلیمنٹ کے اراکین نے ہی ایک ترمیم کرکے اپنا آئینی اور جمہوری حق اپنے لیڈر کو دے دیا تھا - اس آئینی ترمیم کے مطابق پارلیمنٹ کا جو رکن بھی پارٹی لیڈر سے اختلاف کرے گا اس کی رکنیت ختم کی جا سکے گی-
حکومتی جماعت تحریک انصاف بیک گراؤنڈ میں چلی گئی ہے- پے در پے کوششوں کے باوجود تحریک انصاف کی تنظیم سازی نہیں ہو سکی- پارٹی کے اندر انتشار اور گروہ بندی بدستور موجود ہے-جس سے حکومت کے کمزور ہونے کا تاثر ابھرتا ہے۔ حکومت کے اتحادی بھی دبائو ڈال رہے ہیں لہٰذا کچھ لوگوں کو حکومت خطرہ میں بھی نظر آتی ہے۔ مگر جب تک حکومت اور اسٹیبلشمنٹ منٹ ایک پیج پر ہیں عمران خان کی حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوسکتا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024