پاکستان بنگلہ دیش سیریز غیر یقینی کے بادل چھٹ گئے شکستوں کا خوف، حفیظ اور شعیب کو پھر سکواڈ کا حصہ بنا لیا گیا
چودھری اشرف
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان کرکٹ تعلقات کی بحالی ہونے جا رہی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کافی عرصہ سے کرکٹ تعلقات میں کشیدگی پائی جا رہی تھی جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ بنگلہ دیش ٹیم پاکستان کے دورہ پر نہیں آنا چاہتی تھی اور اپنی سیریز بھی آسٹریلیا، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کی طرح نیوٹرل وینو پر کھیلنا چاہتی تھی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق سربراہان جن میں ذکاء اشرف اورنجم سیٹھی کے دور نمایاں رہے ہیں جس میں بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان کے لیے بہت زیادہ کوششیں کی گئیں تھیں۔ بنگلہ دیش سیکورٹی وفد پاکستان کا متعدد بار دورہ بھی کر چکے تھے اور اپنے ملک میں جا کر بورڈ اور حکومت اور مثبت رپورٹ دیتے رہے ہیں کہ پاکستان میں بنگلہ دیش ٹیم کو سیکورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا اس کے باوجود بھی بنگلہ دیش سینئر ٹیم پاکستان کے دورہ پر نہیں آئی۔ خوش آئند بات ہے کہ ایک لمبے عرصہ کے بعد بنگلہ دیش ٹیم پاکستان کا دورہ کرنے جا رہی ہے۔ گذشتہ ایک ڈیڑھ ماہ سے دونوں ممالک کے کرکٹ بورڈ کے درمیان مسلسل رابطے کی وجہ سے مہمان ٹیم کا دورہ پاکستان ممکن ہو رہا ہے۔ دونوں کرکٹ بورڈز میں طے پا گیا ہے کہ ایک لمبے عرصہ کے بعد کرکٹ تعلقات کی بحالی تین مراحل میں ہوگی مہمان ٹیم اپنے دورہ پاکستان میں مختصر سے مختصر قیام کی خواہاں ہے جس کی بنا پر دورہ کو تین مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں بنگلہ دیش ٹیم پاکستان آ کر تین ٹی ٹونٹی میچز کی سیریز لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں کھیلے گی۔ تینوں میچ 24 سے 27 جنوری تک کھیلے جائیں گے۔ بعد ازاں مہمان ٹیم اگلے ماہ پاکستان کا دورہ کرنے آئے گی جس میں وہ 7 سے 11 فروری تک راولپنڈی کے پنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں ٹیسٹ میچ کھیلے گی۔ 20 فروری سے پاکستان میں سپر لیگ کے پانچویں ایڈیشن کا میلہ سج جائے گا جس کی وجہ سے بنگلہ دیش ٹیم اپنے دورہ پاکستان کا تیسرا مرحلہ اپریل میں مکمل کرئے گی۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کی ٹیموں کے درمیان تیسرے مرحلے میں ایک ون ڈے انٹرنیشنل اور آئی سی سی ٹیسٹ چیمپیئن شپ کا دوسرا ٹیسٹ کراچی میں کھیلا جائیگا۔ ون ڈے میچ 3 اپریل کو جبکہ ٹیسٹ میچ 5 سے 9 اپریل تک کھیلا جائیگا۔ دونوں ممالک کے درمیان ایم او یو سائن ہونے کے بعد سیریز کے انعقاد پر چھائے سیاہ بادل چھٹ گئے ہیں امید ہے کہ اب کوئی بڑا ایشو کھڑا نہیں ہوگا اور دیگر غیر ملکی ٹیمیں بھی پاکستان کا دورہ کرنا شروع کر دیں گی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو اس کامیابی پر کرکٹ حلقوں کی جانب سے سہرا جا رہا ہے تاہم اصل خوشی پاکستانیوں کے چہروں پر اس وقت آئے گی جب جنوبی افریقہ، آسٹریلیا اور انگلینڈ جیسی بڑی ٹیمیں پاکستانی سرزمین پر آ کر کھیلیں گی۔ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ دن بھی شاید اب دور نہیں رہے گا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے زیر اہتمام پی ایس ایل فائیو کا پورا ایڈیشن پاکستان میں ہو رہا ہے جس میں غیر ملکی کھلاڑیوں کی شرکت سے ان کے اعتماد میں اضافہ ہوگا اور ان کھلاڑیوں کے ممالک کی ٹیمیں پاکستان کا دورہ کرنے کے لیے راضی ہو جائیں گی۔ پاکستان اور جنوبی افریقہ کے کرکٹ بورڈز میں بھی معاملات کافی حد تک طے پا گئے ہیں کہ مہمان ٹیم پاکستان کا دورہ کرئے گی۔ دوسری جانب ایم سی سی نے بھی اپنی ٹیم پاکستان بھجوانے کا اعلان کر رکھا ہے، پی ایس ایل سے پہلے ایک ایم سی سی الیون کا دورہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہوگا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے بنگلہ دیش کے خلاف ہوم سیریز کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹی ٹونٹی سیریز کے لیے قومی ٹیم کا اعلان کر دیا ہے جس میں ایک مرتبہ پھر ان سابق کھلاڑیوں کو شامل کر لیا گیا ہے جن کا کیرئر ایک سال پہلے تک ختم ہو چکا تھا۔ انہیں ایک مرتبہ پھر شکستوں کے خوف سے نکلنے کے لیے قومی ٹیم میں شامل کر لیا گیا ہے۔ سلیکشن کمیٹی اور ٹیم مینجمنٹ کے پاس اس کا بھی جواز تھا ان کا کہنا تھا کہ کسی وہ عالمی کپ سے پہلے تجربات کر رہے ہیں تاکہ ایک بہترین ٹیم تشکیل دی جا سکے، افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ عالمی کپ میں شریک تمام ٹیموں نے اپنے سکواڈ کو حتمی شکل دیدی ہے لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ اور ٹیم مینجمنٹ اب بھی تجربات کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ چیف سلیکٹر مصباح الحق کا کہنا تھا کہ انہیں شکستوں کا کوئی خوف نہیں ہے اگر ایسا ہے تو بار بار آزامائے ہوئے کھلاڑیوں کو کیوں موقع دیا جا رہا ہے۔ ہار جیت کھیل کا حصہ ہوتا ہے اس سے گھبرانے کی بجائے مضبوط فیصلے ہی جیت کا باعث بنتے ہیں۔ بہر کیف قومی سلیکشن کمیٹی کے سربراہ و ہیڈ کوچ مصباح الحق الحق نے بنگلہ دیش کے خلاف ٹی ٹونٹی میچز کی سیریز کے لیے 15 رکنی پاکستانی سکواڈ کا اعلان کر دیا ہے۔ جس میں دورہ آسٹریلیا میں ٹی ٹونٹی سیریز کا حصہ بننے والے سات کھلاڑیوں کو ڈراپ کر دیا گیا ہے۔ اگر آپ ایک اچھا ٹیم کمبی نیشن بنانا چاہتے ہیں تو ایک سے دو تبدیلیاں کافی تھیں لیکن سات تبدیلیوں سے ایسا لگ رہا ہے کہ سلیکشن کمیٹی اور ٹیم مینجمنٹ کو اپنے ہی فیصلوں پر اعتماد نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو کھلاڑی کیا پرفارم کرینگے۔ سلیکشن کمیٹی کی جان بسے بنگلہ دیش کے خلاف تین ٹی ٹونٹی میچز کی سیریز کے لیے جن پندہ کھلاڑیوں کے ناموں پر اتفاق ہوا ہے ان میں بابر اعظم (کپتان)، احسان علی، عماد بٹ، خوشدل شاہ، محمد حفیظ، محمد حسنین، محمد رضوان، موسٰی خان، شاہین شاہ آفریدی، شاداب خان، شعیب ملک اور عثمان قادر شامل ہیں۔ مصباح الحق کا کہنا تھا کہ شکستوں کا کوئی خوف نہیں ہے رواں سال آسٹریلیا میں کھیلے جانے والے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹیم میں مختلف کمبی نیشن آزمائے جا رہے ہیں۔ سینئرز اور جونیئر کھلاڑیوں کے کمبی نیشن سے ٹیم بنائی گئی ہے تاکہ جیت کا سلسلہ دوبارہ بحال کیا جا سکے۔ مصباح الحق کی اس بات سے کس طرح اتفاق کیا جائے کہ انہیں شکستوں کا کوئی خوف نہیں کیونکہ انہوں نے ایک مرتبہ پھر باولنگ لائن کی ذمہ داری ناتجربہ کار کھلاڑیوں کے کندھوں پر ڈال دی ہے، دورہ آسٹریلیا میں بھی ہماری باولنگ لائن کی وجہ سے شکستیں ہوئی تھیں۔ یہ بات سچ ہے کہ موجودہ بنگلہ دیش ٹیم کوئی آسان حریف نہیں ہوگی اس کے خلاف کامیابی کے لیے پاکستانی کھلاڑیوں کو اپنی ہوم گراونڈ میں اچھی کرکٹ کھیلنا ہوگی۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکے گا جب ہماری ٹیم کے کھلاڑی ایک وننگ یونٹ بن کر کھیلیں گے۔ مصباح الحق نے ٹیم میں شامل سینئر کھلاڑیوں کا دفاع کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کسی کھلاڑی کا کیرئر ختم نہیں ہوا، کامران اکمل، سلمان بٹ سمیت تمام کھلاڑیوں کو روٹیشن پالیسی کے تحت موقع دیا جا رہا ہے۔ سلمان بٹ کے نام پر ابھی تمام افراد کا اتفاق نہیں ہوا ہے جب ہو جائے گا تو وہ ٹیم کا حصہ ہونگے۔ احمد شہراد، عمر اکمل سمیت ٹیم سے ڈراب ہونے والے کھلاڑی اپنی بری کارکردگی کی وجہ سے ٹیم سے باہر نہیں ہوئے ہم نوجوان کھلاڑیوں کو موقع دے رہے ہیں۔ سابق کپتان سرفراز احمد جنہوں نے اپنی فزیکل فٹنس میں کافی بہتر کر لی ہے ٹیم میں واپس آنے کے لیے ان کے پاس پی ایس ایل میں پرفارم کرنے کا بہترین موقع ہے۔ پاکستان ٹیم کے کپتان بابر اعظم بھی بڑے پرامید ہیں کہ بنگلہ دیش کے خلاف جو ٹیم اعلان کی گئی ہے ان کی مکمل مشاورت اس میں شامل رہی ہے، بنگلہ دیش کے خلاف سیریز میں ایک مرتبہ پھر کامیابی حاصل کر کے شکستوں کے تسلسل کو ختم کیا جائے گا۔
ٹیم کے ہیڈ کوچ مصباح الحق اور کپتان بابر اعظم جیتنے پرامید دکھائی دیتے ہیں آیا وہ ملک و قوم کی توقعات پر بھی پورا اتر سکیں گے۔