’’ابّا جی اور امّی جی‘‘
(جرمنی میں مقیم شاعر ،ادیب اور محقق حیدر قریشی کی ادبی خدمات کے سب معترف ہیں ان کی نظم و نثر پر درجنوں کتابیں
شائع ہوچکی ہیں ،ان کے فن وشخصیت پر پاکستان میں مقالے بھی لکھے گئے جو کسی اعزاز سے کم نہیں ،گذشتہ سال ان کی اہلیہ مبارکہ حیدر وفات پاگئی تھیں ،ان کے بارے میں خاندان کے بڑوں کے ساتھ بچوں نے بھی جو تاثرات لکھے اسے بھی کتابی صورت پیش کر دیاگیا تھا ،اب حیدر قریشی نے اپنے والدین کے حوالے سے ایک کتاب تحریر کی جو زیر طبع ہے ذیل میں اس کا دیباچہ پیش خدمت ہے (خالد یزدانی )
ابا جی اور امی جی کے بارے میں یہ کتاب مرتب کرتے ہوئے میں اپنی زندگی کی ابتدا سے اب تک کے ہر دور سے گزرا ہوں۔رنگ برنگی یادیں۔۔۔دکھوں سے بھری زندگی کی ہنستی مسکراتی ہوئی یادیں مختلف کیفیات پیدا کرتی رہیں۔
امی جی کے بارے میں عام اور معروف بات تو وہی ہے جو ہمارے عہد کی ساری ماؤں کے بارے میں کہی جاتی ہے کہ ماں کا کوئی نعم البدل نہیں اور جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے ۔ تاہم امی جی کا امتیازی وصف یہ رہا کہ انہوں نے بھیانک غربت کے دنوںمیں بلکہ بھیانک غربت کے کئی برسوں سے گزرتے ہوئے ابا جی کے ساتھ اپنی محبت اور وفا کا رشتہ کبھی کمزور نہیں ہونے دیا۔اولاد کے لیے سراپا محبت اور شفقت۔۔انتہائی تنگ دستی کے جہنم سے گزرتے ہوئے بھی اپنے قدموں کی جنت کو اولاد کے لیے ہمیشہ سرسبزو شاداب رکھا۔میں تو ان کی بچپن میں سنائی ہوئی لوری
’’راج دُلارے۔۔۔
او میری اکھیوں کے تارے میں تو واری واری جاؤں‘‘
کی محبت کی ڈوری سے ہمیشہ کے لیے بندھا ہوا ہوں۔13 جنوری کو میری سال گرہ ہو یا22 جنوری کو امی جی کی سال گرہ ہو۔۔۔۔نماز اور قرآن پڑھنے کے بعد ناشتہ کرنے کے ساتھ میرے دن کی ابتدا اسی لوری کو سننے سے ہوتی ہے۔پاکستان میں کوثر پروین کی آواز میں یہ لوری میں نے آڈیو کیسٹ کی ایک سائیڈ میں بار بار ریکارڈ کرالی تھی۔عرصے تک یہ کیسٹ کام آتی رہی۔پھر یو ٹیوب کا دور آیا تو سننا مزید آسان ہو گیا۔سال گرہ کے دنوں کے علاوہ بھی کبھی امی جی زیادہ یاد آتی ہیں تو یہی لوری سننے لگتا ہوں ۔عمر کے اس حصے میں،68 برس کا ہو کر بھی میری یہ عادت برقرار ہے۔
ابا جی کا معاملہ یوں ہے کہ میں نے خود میں اور ان میں کبھی تفریق نہیں کی۔مجھے تفریق دکھائی ہی نہیں دیتی۔میں اپنے آپ کو دیکھتا ہوں تو ابا جی کو دیکھتا ہوں۔ابا جی کو دیکھتا ہوں تو اپنے آپ کو دیکھتا ہوں۔یوں امی جی سے میری محبت دو آتشہ ہو جاتی ہے۔
میں نے اپنی زندگی میں بہت سارے دعا گو اور بزرگ دیکھے ہیں لیکن مجھے ابا جی ہمیشہ سب سے زیادہ روشن روحانی بزرگ دکھائی دئیے۔کسی ایچ پیچ یا گول مول انداز کی بجائے ان کے متعدد صاف اور سیدھے سچے خواب ان کی کھری روحانیت کا ثبوت تھے۔اپنے بچوں اور قریبی احباب کے لیے دعا اور دم درود کامحدود سلسلہ بھی اسی روحانیت سے منسلک تھا۔ یہ روحانیت انہیں شاید شدید غربت(اوروارث بیٹوں) کی شرط کے ساتھ ملی تھی اور انہوں نے اسے قبول کر لیا تھا۔اب سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ غربت کی شرط ابا جی کی زندگی تک تھی۔شاید انہوں نے بھی کہا ہو کہ میرے بعد میرے بچوں کو تنگ دست نہ رکھنا۔ چنانچہ ابا جی اور امی جی کی وفات کے بعد ان کی ساری اولاد کے دن بدلتے گئے، بہتر سے بہتر ہوتے چلے گئے۔یہ سب ابا جی کے ذریعے ہی ہمیں ملا ہے۔
اباجی کی وفات کے تئیسویں روز ان کا کمرہ گلاب کی خوشبو سے بھر گیا تھا۔ میرے بیان کردہ اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے منشا یادنے لکھا تھا:
’’میں حیدر قریشی کایہ بیان پڑھ کر تھوڑا سا پریشان ہوگیا اور سوچ میں پڑگیا کہ میں توانہیں نہایت عقلی، ریشنل اورسائنسی سوچ کا حامل سمجھتاتھا یہ انہوں نے کرامتوں اور معجزوں کی کیا باتیں شروع کردی ہیں مگرجونہی میں نے آخری جملہ پڑھا ،اطمینان کا ایک لمباسانس لیا ۔لکھاتھا:۔ ۔ ۔’’یہ خوشبو کیاتھی؟اتنی سی بات ہی سمجھ میں آتی ہے کہ اگر آنکھ خواب تخلیق کر سکتی ہے توقوتِ شامہ بھی خوشبو تخلیق کرسکتی ہے‘‘۔میں نے جب سے لکھنا شروع کیا ہے ،جن مختلف اصناف میں لکھا ہے،ابا جی اور امی جی تب سے ہی میری تحریروں کو منور کرتے رہے ہیں۔وہ سار الکھا ہواجو مختلف کتابوں میں جابجا بکھرا ہوا تھا،اب یک جا کیا ہے تو یہ ایک چھوٹی سی کتاب مرتب ہو گئی ہے۔ آخر میں مبارکہ کا شکریہ ادا کرنا واجب ہے کہ فوت ہو جانے کے باوجود ’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘ کی تکمیل کے وقت انہوں نے ہی مجھے یہ احساس دلایا کہ مجھے ابا جی اور امی جی پر یہ کتاب مرتب کرنی چاہئے۔سو اب یہ کتاب مکمل ہو کر ،چھپ کر قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔