اماں

اماں جی کالج کی صفائی کرکے بانسوں سے بنی برآمدے کی چھت کے سائے تلے بیٹھ جاتی تھیں۔ مجھے اماں جی کے نماز پڑھنے کے اوقات کبھی سمجھ نہیں آئے۔ جب تاریک اندھیرے میں ہوسٹل میں سوئی لڑکیوں میں سے کوئی خواب میں ڈار کر اٹھ جاتی تھی‘ اماں جی فجر کی نماز ادا کرنے چل پڑتی تھیں۔ دن کی چلچلاتی دھوپ جب اماں سب کو کاروبار زندگی میں بے حد مصروف دیکھتیں تو کہتیں لگتا ہے ظہر کا وقت ہو گیا ہے۔ سہ پہر کو جب اماں کسی کی آنکھوں میں ادایسی محسوس کرتیں تو عصر کیلئے وضو کرلیتی تھیں۔ دن ڈھلے جب پرندے گھروں کو لوٹتے‘ اماں مغرب کی نیت باندھ لیتیں۔ رات کو جب ہوسٹل میں گرم گرم روٹیوں کی خوشبو آنی شروع ہو جاتی تو اماں عشاء کیلئے چل پڑتیں۔ میں اکثر اماں کو احساس دلاتی کہ یہ طریقہ ٹھیک نہیں۔ ایک دن اماں مجھے کہنے لگیں’’تو چاہتی ہے میں تیری طرح گھڑی دیکھ کر نماز پڑھا کروں۔ دو منٹ فی رکعت اور دس منٹ میں نماز پوری اور ان دس منٹوں میں بھی پورے دن کی فکر۔
میں اونچا سنتی ہوں۔ اذان کی آواز مجھے نہیں آتی۔ گھڑی پر وقت دیکھنا بھی مجھے نہیں آتا مگر یہ اللہ کی مخلوق‘ یہ گھروں کو لوٹتے پرندے‘ یہ اداس آنکھیں اور یہ برستے بادل مجھے بتا دیتے ہیں کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ اب اس سے بات کرنے کا وقت ہو گیا ہے۔
میں اپنے دل کاموسم دیکھ کر نماز پڑھتی ہوں کہ جب نیت باندھوں تو بھلے دل میں خزاں ہو‘ پر جب سلام پھیروں تودل میں بہار آچکی ہو… تبھی تواماں کی نماز آج تک قضا نہیں ہوئی۔