سیاسی سموگ
اسوقت ملکی حالات بڑے حیران کن اور پریشان کن ہیں۔سورج نکلا ہوا ہے لیکن روشنی غائب ہے۔مطلع صاف ہے لیکن نظر کچھ نہیں آتا۔نظر آئے بھی تو کیسے؟ ہمارے عظیم قائدین نے وطنِ عزیز کو سیاسی سموگ میں دھکیل دیا ہے اور اس سموگ کا نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔پہلے جب بھی نئی حکومت آتی تھی شروع شروع میں تو دائیں بائیں یا اپوزیشن سے کچھ آوازیں اٹھتی تھیں اور پھر آہستہ آہستہ حالات معمول پر آجاتے تھے ۔ حکومت اپنا کام شروع کر دیتی تھی۔ مگر عجیب قسمت ہے ہماری موجودہ حکومت کی کہ جب سے یہ اقتدار میں آئی ہے پاکستان میں امن و سکون غائب ہو گیا ہے۔ پاکستان پانی پت کا میدان بن گیا ہے۔ جہاں حکومت اور اپوزیشن آپس میں بر سرِ پیکار ہیں۔ نہ حکومت اپنا کام کرپارہی ہے اور نہ اپوزیشن۔ ان دونوں طاقتوں کی لڑائی میں خوامخواہ عوام رگڑی جا رہی ہے۔ سب سے پہلا مسئلہ تو اسوقت میاں صاحبان کا ہے۔ چھوٹے میاں صاحب قانونی طور پر تو جیل میں ہیں لیکن عملی طور پر منسٹرز انکلیو میںپر تعیش زندگی گزاررہے ہیں جہاں وہ پارٹی اجلاس کی صدارت بھی کرتے ہیں۔ کرپشن کے الزامات ہونے کے باوجود پی اے سی کے چیئرمین ہیں۔ان حالات میں نیب اور ایف آئی اے انکے خلاف مختلف الزامات کی تفتیش کررہی ہیں اور بطور چیئرمین پی اے سی وہ ان دونوں اداروں کے سربراہوں کو بلاکر ان کی کارکردگی پر انہیں آنکھیں دکھا رہے ہوتے ہیں۔ آخر میں’’ ُتو میرا بھائی ہم تیرے بھائی ‘‘پر مسئلہ ختم ہوگا۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ بڑے لوگوں کے خلاف انکوائری ہو ہی نہیں سکتی۔یہ واٹر پروف اور کرپشن پروف لوگ ہیں۔ محترم زرداری صاحب ٹھیک فرماتے ہیں کہ جیل جانے سے تو میں اور مشہور ہونگا۔ انکوائریاں اور الزامات تو انہیں اور بلندیوں پر لے جاتے ہیں۔ بڑے میاں صاحب کی طرف سے بار بار بیان آرہا ہے کہ انہیں جیل میں سہولتیں نہیں دی جا رہیں۔اور تو اور ہیٹر بھی نہیں دیا جا رہا۔ میاں صاحب کے بیان سے مجھے مرحوم جنرل ٹکا خان کا واقعہ یاد آرہا ہے۔ وہ یوں کہ مرحوم نے فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ جناب شہید بھٹو صاحب نے انہیں وزیر دفاع کا عہدہ دے دیا۔ جب ضیاء الحق کا مارشل لاء لگا تو ایک میجر صاحب کو جیپ دے کر بھیجا گیا کہ جنرل صاحب کو حفاظتی تحویل میں لے کر گیسٹ روم میں لایا جائے۔میجر صاحب وہاں جنرل صاحب کے ہاں پہنچے۔انہیں جیپ میں بٹھا کر روانہ ہونے لگے تو جیپ خراب ہو گئی۔ جنرل صاحب نے پوچھا کوئی بہتر جیپ نہیں تھی۔ میجر صاحب نے بڑے ادب سے جواب دیا ’’ سر یہی وہ ٹرانسپورٹ ہے جو آپ نے ہمیں (فوج کو) مہیا کی ‘‘ تو جناب یہی وہ جیلیں ہیں اور یہی وہ ماحول ہے جو آپ نے اپنے دور اقتدار میں عوام کے لئے مہیا کیا۔ ویسے حیران کن بات یہ ہے کہ جیل میں بھی یہ لوگ5سٹار زہوٹلز والی سہولیات طلب کرتے ہیں۔ اسکا حل بھی ان لوگوں نے بڑا آسان سا نکالا ہے کہ جیل ملنے کی صورت میں فوری طور پر ہسپتال داخل۔ وہاں شراب بھی مل جاتی ہے شہد بھی اور وقتی ضروریات زندگی بھی۔ ویسے سنا ہے کہ ایک سندھی وڈیرہ زندان میں ہر قسم کی عیاشیوں سے مستفید ہوتا رہا۔ بڑے میاں صاحب کو جیل میں زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جناب خورشید شاہ صاحب نے پیشن گوئی کردی ہے کہ میاں صاحب چند دنوں بعد رہا ہو جائیں گے۔
علامہ سر ڈاکٹر محمد اقبال نے اپنے ایک شعر میں کرگس اور شاہین کا آپس میں مقابلہ کیاتھا۔ گو دونوں ایک ہی فضا میں رہتے ہیں مگر دونوں کے جہاں مختلف ہیں۔ ایک دل جلے بیروزگار تعلیم یافتہ نوجوان نے اس شعر کے دو الفاظ بدل دئیے ہیں۔فرماتے ہیں سیاستدان اور عوام گو دونوں ایک ہی ملک کے باسی ہیں مگر دونوں کے جہاں علیحٰدہ علیحٰدہ ہیں۔ یہ مسئلہ یوں پیدا ہوا ہے کہ شہزادہ بلاول صاحب عنقریب جنوبی پنجاب کے دورے پر تشریف لا رہے ہیں اور انکے کھانے کے لئے کچھ چیزوں کا خصوصی طور پر اضافہ کیا گیا ہے۔ وہ ہیں دیسی شہد، کابلی انار ، سیاہ تیتر اور ہرن کا گوشت ۔یہ سادہ سا کھانا جناب بلاول صاحب تناول فرمائیں گے ۔جبکہ یہاں کے عوام کے لئے دھکے، بیماری ، پریشانی اور بھوک انکا مقدر ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جناب بلاول صاحب غریبوں کے لیڈر ہیں۔ وہ عوام کی غربت دور کرنے اور انہیں انکے در پر انصاف دینے کے دعویدار ہیں۔ یہ تو وہی بات ہے جیسے ایک برطانوی مزاح نگار نے لکھا تھا کہ سخت گرمی میں جب میں درخت کی ٹھنڈی چھائوں تلے آرام کرسی پر بیٹھ کر غریب مزدوروں کو سخت دھوپ میں پتھر توڑتے ہوئے دیکھتا ہوں تو مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی بھی پچھلے پچاس سالوں سے عوام کے لئے دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے وعدے کررہی ہے بقول ایک شاعر:
؎ ’’ روٹی ، کپڑا اور مکان ۔ملے گا تم کو سب کچھ جان۔یہاں نہیں پر اگلے جہان ‘‘
اچھا چھوڑیں ان پریشانیوں اور گلے شکووں کو کیونکہ اب بھٹو صاحب کی تیسری نسل اسی پرانے وعدے پر میدان میں آئی ہے۔ آپ انہیں وزیر اعظم بنائیں پھر دیکھیں انکے کارنامے۔ویسے ہم عوام ہوتے ہی پست ذہن اور کچی سوچ والے لوگ۔داد دینی پڑتی ہے پیپلز پارٹی کی مستقل مزاجی کی ۔’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کا جو وعدہ جناب بھٹو صاحب نے 1970میں کیا تھا۔یہ لوگ آج بھی اسی پر قائم ہیں اور انشا ء اللہ جب تک پارٹی قائم ہے ۔یہ وعدہ بھی قائم رہے گا۔ یہ ہے مستقل مزاجی۔سندھ میں پیپلز پارٹی آج کل سخت غصے میں ہے اور انہوں نے دھمکی دی ہے کہ وہ وفاق کے کسی وزیر کو سندھ میں نہیں آنے دیں گے بلکہ عین ممکن ہے کہ کچھ وزراء کو ایم پی او کے تحت گرفتار بھی کر لیا جائے۔اس ناراضگی کا پسِ منظر وفاقی حکومت کی طرف سے کچھ بہت ہی معزز پارٹی ممبران کے نام کرپشن چارجز پر ای سی ایل میں ڈالے گئے ہیں اور یہ وہ نام ہیں جو سندھیوں اور خصوصاً پیپلز پارٹی کے لئے بہت معتبر ہیں۔ لہٰذا وفاقی حکومت کی یہ بچگانہ حرکت سندھ کے لئے ناقابل معافی ہے۔
حکومتی کشمکش کے نتیجے میں بلاول صاحب نے فرمایا کہ اگر جناب زرداری صاحب اجازت دیں تو وہ ایک ہفتے میں موجودہ حکومت گرا سکتے ہیں اور یہ بات کسی حد تک ہے بھی سچ۔تحریک انصاف کی برتری محض چند ووٹوں سے ہے اور وہ بھی دائیں بائیں سے مانگے ہوئے ووٹ ہیں۔جبکہ پیپلز پارٹی کے لئے یہ ووٹ توڑنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے حکومت گرانے کا فیصلہ کر لیا ہے جسکے نتیجے میں جناب بلاول صاحب جنوبی پنجاب کا دورہ فرما رہے ہیں۔اس وجہ سے وہ جنوبی پنجاب کے تمام اضلا ع میں جائیں گے ۔گو اسدفعہ جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کی اکثریت نہیں ہے ۔مگر ایک وقت پر جنوبی پنجاب پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا۔ اس لئے جب بلاول بھٹو زرداری صاحب پرانے جیالوں کے پاس جائیں گے ۔انہیں لالچ اور آفرز دیں گے تو کچھ نہ کچھ سیٹیں توڑنے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ اسوقت حکومت تمام مخالف پارٹیوں کی شدید تنقید میں دب کررہ گئی ہے۔حکومت سیاسی سموگ میں ہاتھ پائوں مار رہی ہے لیکن جب تک حکومت اس سموگ سے باہر نہیں آتی حکومتی کارکردگی بے معنی رہے گی۔