سنہری عدلیہ
الحمد اللہ ہماری تاریخ متحمل‘ بردبار‘ نیک نام‘ اپ رائٹ جج صاحبان کے تذکرے سے بھری پڑی ہے۔ جو واقعی منہ زور اور طاقت کے نشے میں چور حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ بہت پیچھے نہیں جائوں گا۔ تحریر کا آغاز قیام پاکستان سے کروں گا۔ ایوب خان صدر پاکستان تھے اور جسٹس عبدالعزیز خان مغربی پاکستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کہ صدارتی سیکریٹریٹ کی جانب سے سلسلہ جبیانی ہوا کہ جناب صدر ہائیکورٹ کے جج صاحبان سے خطاب کریں گے۔ ضروری انتظامات کئے جائیں۔ جس پر بہت سے ابروئوں پر بل آ گئے۔ جسٹس اے ایس فاروقی نے کھل کر مخالفت کی کہ صدر پاکستان کہ یہ استحقاق کس نے دیا۔ طاقت کے ایوانوں نے جلد ہی محسوس کر لیا کہ غلط پیغام چلا گیا۔ بالآخر معاملہ ایک عمومی ملاقات پر طے پا گیا۔ گفتگو کے دوران جناب صدر نے شکوہ کیا کہ عدالت عالیہ کے سخت رویے سے حکومت کا ریفارم پروگرام متاثر ہو رہا ہے اور متوقع نتائج حاصل نہیں ہو پا رہے۔ جس پر جسٹس فاروق نہایت وقار و متانت کے ساتھ اٹھے اور ایوب خان کی محالفت کرتے ہوئے فرمایا۔ جناب صدر آپ نے یہ کیسے سوچ لیاکہ جج صاحبان آپکی مرضی کے فیصلے کریں گے۔ ہم اپنے فرائض دیانتداری سے قانون کے مطابق ادا کرتے ہیں۔ جس میں کسی سے ڈرتے ہیں اور نہ مرعوب ہوتے ہیں۔ جس دن مجھے یہ احساس ہو گیا کہ اپنے فرائض اپنے حلف کے مطابق نبھا نہیںپاتا تو اسی لمحے عدالتی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جائیں گا۔ جسٹس فاروقی بیٹھے تو جسٹس وحید الدین احمد کھڑے ہو گئے اور پیش رو کے افکار کی اس سے بھی زیادہ پرزور الفاظ میں تائید کی۔
ایک اور واقعہ سنیئے۔ جسٹس ایم آر کیانی مغربی پاکستان کے چیف جسٹس تھے۔ کسی ضلعی جج کے روبرو گئے کسی مقدمہ میں مارشل حکام دلچسپی رکھتے تھے۔ چنانچہ مقدمہ کی فائل طلب ہوئی۔ چیف جسٹس کو پتہ چلا تو فائل منگوا کر اپنی دراز میں رکھ لی۔ مارشل بعد میں بھی چلتا رہا مگر کبھی کسی کو چیف صاحب سے رابطہ کی جرات نہ ہوئی۔ دلیر‘ باکردار‘ دیانتدار‘ بااصول اور باوقار ججوں کی اس زمانے میں کمی تھی اور نہ آج۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ سبھی کے جگر گردے ایک جیسے نہیں ہوتے۔ کم حوصلہ اور کمزور لوگ بھی بیچ بیچ میں آ جاتے ہیں بعد کے مارشل لائوں میں انہونیاں بھی ہوئیں جو تاریخ کا حصہ بن چکیں اور جن کا تذکرہ کچھ زیادہ خوشگوار نہیں ہے۔ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کو ریاست کا ستون کہا جاتا ہے اور یہ تینوں اپنی اپنی جگہ بے حد اہم مگر ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ عدلیہ کا کردار اہم ترین ہے کیونکہ مقننہ قانون سازی کر کے فارغ ہو جاتی ہے اور انتظامیہ نفوذ کے اہتمام کے بعد سبکدوش، مگر خلق خدا اس سارے کھیل کو کیسے لے رہی ہے اور اس پر اس کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں یہ سب کچھ متوازن ہے یا بے ہنگم؟ یہ جانچنا، پرکھنا اور اس کی ممکنہ درستگی عدلیہ کا کام ہے فی الحقیقت عدلیہ سوسائٹی میں ایک شاک ابزاربر کی طرح کام کرتی ہے یوں سمجھ لیجیئے کہ مقننہ اور انتظامیہ کی اجتماعی کارکردگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غلطیوں، کوتاہیوں، صدموں، جھٹکوں کو عدلیہ اس طریقے سے ریپئر کرتی ہے کہ سوسائٹی پھر سے نارمل ہو جائے۔ سو جج صاحبان کا علم اور تجربہ ہمہ جہتی ہونا چاہیے۔ وہ نہ صرف انتظامی اور قانون سازی کے اسرار ورموز سے واقف ہوں بلکہ ان کے ممکنہ باہمی تصادم سے خلق خدا پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کو شافی و کافی طور پر زائل کرنے کا فن بھی جانتے ہوں۔
انیسویں صدی کے معروف برطانوی مورخ لارڈ ایکٹن کے معروف زمانہ قول کا ذکر یہاں ضروری محسوس ہوتا ہے کہ’’طاقت انسان کو کرپٹ بناتی ہے اور بے لگام طاقت تو اسے پاتال تک کرپٹ بنا دیتی ہے۔‘‘ جب دنیا میں طاقت موجودہے اور اس سے درجہ بدرجہ کرپٹ ہونے والے لوگ بھی اور یہ بھی معلوم کہ طاقت منہ زور ہوتی ہے تو اسے نکیل ڈالنے اور قرینے میں رکھنے کا کام بے حد مشکل ہے اوراس مشکل کام کی انجام دہی جوڈیشری کے ذمہ ہے جس کے بغیر کرہ ارض سے عدل اٹھ جاتا ہے اور دنیا طاقت کی غلام ہو کر رہ جاتی ہے۔
معروف برطانوی ویکل اور جج لارڈ ڈیننگ1899-1999 کا ایک بہت پڑھا جانے والاآرٹیکل Judges and judcial power اسی نام سے چھپنے والا ان کی کتاب میں بھی شامل ہے جس میں انہوں نے جج کی طاقت کی حدود وقیود بیان کی ہیں۔ لکھتے ہیں کہ جہاں تک جوڈیشل پاور کا تعلق ہے تو اس کا جج کے ساتھ کوئی تعلق نہیں جج کے پاس مقدمات فیصل کرنے کی جو رسڈکشن ہوتی ہے مگر ان کے پاس اپنی کوئی پاور نہیں۔ ان کی صرف ایک ہی طاقت ہے کہ مقدمات کا قانون کے مطابق فیصلہ کریں جج اگر باکردار اور مائب الرائے ہے تو کسی قسم کا سیاسی اور گروہی دباؤ اس کی راہ نہیں روک سکتا۔ اس کا یہ عقیدہ کہ وہ کسی انسان کی بجائے صرف خدا کے سامنے جوابدہ ہے اسے مضبوط بنا دیتا ہے اور پھر اپنے عہدے کا وقار اور اس کی حساسیت بھی ہمیشہ جج صاحبان کے پیش نظر رہتی ہے۔
جہاں تک جج صاحبان کی پبلسٹی کا تعلق ہے تو اعلیٰ عدلیہ کے کوڈ آف کنڈکٹ کا آرٹیکل V اس پر بہت واضح ہے کہ ’’چونکہ جج صاحبان کھلی عدالت میں پبلک کے سامنے کام کرتے ہیں لہٰذا انہیں مناسب پبلسٹی مل جاتی ہے اس سے زیادہ کی انہیں کوشش نہیں کرنی چاہیے انصاف کے تقاضوں اور منصفی کے تقدس کے پیش نظر روایتی طور پر جج صاحبان دنیا داری سے تقریباً لاتعلق ہو جاتے ہیں اور ان کی سوشل لائف بے حد محدود، زیر سماعت مقدمات کی سن گن بھی صرف اتنی نکلتی ہے جتنا کہ عدالت اجازت دیتی ہے۔ سرعام گفتگو اور میڈیا مباحث کا توسوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہاجاتا ہے کہ بمبئی ریذیڈنسی کے جوڈیشل افسران مقامی اخبار نہیں پڑھتے مبادا کسی زیر سماعت مقدمہ میں ان کی رائے پر اثرانداز ہو سکیں۔
غالباً یہ اسی روایت کا شاخسانہ تھا کہ گزرے نومبر سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے برطانیہ میں ہونے والی ایک تقریب میں ’’پاکستان کے مستقبل پر کلیدی خطبہ کے بعد میڈیا والوں کے سوالات سننے سے یہ کہہ کر معذرت کردی تھی کہ جج کے لئے میڈیا سے بات کرنا اخلاقی طور پر مناسب نہیں اورپھر اسی روایت کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے آگے بڑھایا۔ فیڈرل جوڈیشل اکیڈیمی کے ایک تربیتی کورس کی اختتامی تقریب میں موصوف نے میڈیا کو اپنی تقریر کی لائیوکوریج اور ریکارڈنگ سے یہ کہہ کر روک دیا تھا کہ جج صاحبان کی مصروفیات کی یوں تشہیر اعلیٰ عدلیہ کے کوڈ آف کنڈکٹ کے منافی ہے اور یہاں مجھے اموی دور کا وہ قاضی بھی یاد آ رہا ہے جس سے خلیفہ امور خلافت سے فراغت کے بعد کسی مشورہ کے لئے رات کو ملنے گیا تو قاضی نے یہ نہیں یہ کہتے ہوئے معذرت کر دی تھی کہ رات کی تاریکی میں یوں ملنا مناسب نہیں صبح کھلی کچہری میں آنا۔