جمعۃ المبارک‘ 11؍ جمادی الاوّل 1440 ھ ‘ 18 ؍ جنوری 2019ء
پی آئی اے کی تمام پروازوں میں قصیدہ بردہ
شریف پڑھا جائے گا
کسی بھی کام کی ابتدا اچھے انداز سے شروع کرنے کے سبھی قائل ہیں۔ مسلمان ہر کام کی ابتدا کلام ِ پاک سے تلاوت کرتے ہیں۔ یہ پی آئی اے کے طیاروں میں بھی ہوتی ہے۔ اب قصیدہ بردہ شریف بھی سنایا جائے گا۔ یہ بھی اچھی بات ہے مگر دوران سفر مسافر باتیں کرتے ہیںہنسی مذاق کرتے ہیں کہیں اس طرح ہر وقت قصیدہ سنانے سے بے ادبی تو نہیں ہوگی۔ تلاوت اور نعت سے جو بھی اچھا کام شروع کیا جائے گا‘ اس میں اللہ کی خاص رحمت شامل ہوتی ہے‘لیکن دھیان رہے اس وقت جو حالت پی آئی اے کے طیاروں کی ہے اور جو یہ جہاز اڑانے والوںکی ہے‘ ان کی موجودگی میں یہ روحانی امداد کی پکار بھی خاص کارگر ہوتی نظر نہیں آرہی۔ ویسے بھی ہماری قومی ایئرلائن اللہ توکل ہی چل رہی ہے۔ چلو اب تلاوت اور نعت کی روحانی مدد بھی شامل حال رہے گی۔ اس کیساتھ ساتھ قومی ایئرلائن کوخود اپنے مختلف امراض کا شکار طیاروں کی مرمت اور غیر تربیت یافتہ عملے پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ ہر کام دم وغیرہ سے‘ تعویذ باندھنے سے نہیں ہوتے۔ جس ایئرلائن کے طیارے ناکارہ اور قریب المرگ ہوں‘ ان طیاروں کو اڑانے والے پائلٹ ہی نہ ہوں‘ عام ڈرائیور ہوں اس کیلئے دعائوں سے زیادہ کارکردگی بہتر بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب پتہ چلا کہ پی آئی اے میں ماہر لائسنس یافتہ پائلٹ کیوں کم ہیں۔ کوئی بھی ماہر ہوا باز ان طیاروں کی میڈیکل ہسٹری دیکھنے کے بعد کسی بھی قیمت پر ان کو اڑانے کی حامی نہیں بھر سکتا۔ اس لئے اناڑی ڈرائیوروں سے کام چلایا جا رہا ہے جن کے نزدیک رکشہ اور طیارہ ایک برابر ہیں۔ دنیا بھر کی وہ ایئرلائن جن کی ابتدا اور مہارت ہماری ایئرلائن کی مرہون منت ہے‘ وہ آج کہاں ہیں اور ہم کہاں ہیں۔ حکومت کبھی اس بات پر غور کرے تو شاید پی آئی اے کی بہتری کی راہ نکل سکے۔
٭٭…٭٭…٭٭
چین کا چاند پر کپاس کی کاشت کا تجربہ کامیاب
لو جی کر لو گل ۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم ابھی تک سڑکوں پر آلو ، ٹماٹر اور پیاز پھینک کر ان کی ناقدری کا گلہ کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستان کی کپاس کا ایک نام تھا۔ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ کپاس اُگانے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ مگر افسوس ہمارے حکمرانوں نے اپنے مفادات اور اقرباپروری کی خاطر ٹیکسوں سے بچائو کی خاطر کپاس والے علاقوں میں شوگر ملیں قائم کر کے وہاں کاشتکاروں کو ایک نئے خطرے سے دوچار کر دیا۔ ایسے غلط فیصلوں کی وجہ سے کپاس کے زیرکاشت رقبے میں کمی ہو گئی اور کاشتکاروں کی کپاس کی فصل میں دلچسپی بھی کم ہو گئی۔ صرف یہی نہیں زرخیز خطہ ہونے کے باوجود سبزیوں، پیاز‘ ٹماٹر‘ ادرک دوسروں سے منگوا رہے ہیں۔ ان میں تو ہمیں خود کفیل ہونا چاہئے تھا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ اب چین تو چاند پر کپاس کاشت کر سکتا ہے۔ اس کے پاس وسائل بھی ہیں‘ ٹیکنالوجی بھی‘ ہمارے پاس یہ دونوں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہم اگر اپنے ملک کی زرخیز زمین پر ہی اپنی فصلوں کو تحفظ دیں‘ کاشتکاروں اور کسانوں کا خیال رکھیں تو ہمیں چاند پر جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم اپنی زمین پر ہی بہترین کپاس کاشت کر سکتے ہیں۔ سکندراعظم کے دور سے اور سچ کہیں تو موہنجوڈاروکے تہذیبی دور سے لے کر آج تک سندھ اور پنجاب کے علاقے کپاس کی بہترین پیداوار دیتے آ رہے ہیں۔ تو آئیں ہم اپنی سرزمین کو ہی چاند سمجھ کر یہاں اپنی نقد آور فصلوں کو پروان چڑھائیں تو ہمارے کسان اور کاشتکار بھی خوشحال ہوں گے۔ مثبت معاشی پالیسی کی وجہ سے کسی سرمایہ دار کو بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ جا کرے اور کاٹن کی ملیں لگانے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔
٭٭…٭٭…٭٭
چک جھمرہ میں نازیبا حرکات پر میاں بیوی
نے جعلی پیر کی درگت بنا دی
خدا جانے ہمارے توہمات کے مارے عوام کو کب عقل آئے گی کہ یہ قسمت بدل دینے والے ڈبہ پیر اور ڈھونگی بابے سب فراڈ ہوتے ہیں۔ ان کی دال روٹی اور عیاشیاں ان بے وقوف‘ جہالت اور توہمات کے مارے لوگوں کی وجہ سے چلتی ہیں جوان کے پاس آتے ہیں۔ ذرا نظر ڈالیں تو ان بد وضع‘ بد زبان‘ ننگ دھڑنگ ہو یا چرس کے سوٹے لگانے والے‘ بے نمازی ہوں یا دھمال ڈالنے والے‘ یہ قید شریعت سے آزاد ہیں۔ رنگ باز ہیں۔ آئے روز ان کے خلاف اخبارات میں‘ ٹی پر کیا کچھ سامنے آتا ہے۔ پھر بھی لوگ ان بہروپیوں کے پھندے میں کس طرح آجاتے ہیں۔ اب گزشتہ روز بھی ایک ایسا ہی پیر میاں بیوی کے ہتھے چڑھ گیا جو خاوند کو باہر چیز لانے بھیج کر خاتون سے دست درازی کی کوشش کر رہا تھا۔ پھر کیا تھا‘ ساری دنیا نے دیکھا کہ اس پر فرتوت کی ساری کرامتیں‘ سارے موکل‘ سارے ہمزاد اور ان کے ساتھ ہی جن اور پریاں بھی اڑن چھو ہو گئیں۔ کسی نے اپنے آقا کو میاں بیوی کی چھترول سے بچانے کی کوشش نہیں کی۔ شاید انہیں ڈر تھا کہ کہیں وہ خود بھی چھترول کی زد میں نہ آجائیں۔ ہر بار حکومت ایسے ڈھونگی پیروں اور بابوں کے خلاف سخت ایکشن کا اعلان کرتی ہے۔ پھر نجانے کیوں خود ہی بھنگ پی کر سو جاتی ہے۔ اگر ایک بار بھی ان جعلی پیروں کو عبرت کی مثال بنا کر لٹکایا جائے تو پاکستان کے باقی فراڈیوں کو بھی عبرت ہوگی۔ لاکھوں لوگوں کا دین ایمان اور رپیسہ بچ جائے گا۔
٭٭…٭٭…٭٭
قصہ ایشین فٹبال کنفیڈریشن اور میرپور سٹیڈیم
کی بجلی کاٹنے کا
میرپور سٹیڈیم کی بجلی کاٹے جانے پر اظہارافسوس کیا جائے یا ایشین فٹبال کنفیڈریشن کاپاکستان کی نومنتخب باڈی کو ماننے سے انکار کا ماتم ۔ کنفیڈریشن والوں نے تو فلپائن کے ساتھ فٹبال تو سیریز بھی منسوخ کر نے کا فیصلہ کیا ہے ۔ پاکستان فٹبال فیڈریشن عرصہ دراز سے تنازعات کا شکار چلی آرہی ہے۔ آمدن اس کی ٹکے کی نہیں اور فیڈریشنوں کو سینگ لڑانے سے فرصت نہیں۔ جب باہمی سرپھٹول جاری ہو تو پھر باہر سے بھی بے بھائو کی جوتیاں پڑتی ہیں۔ یہی کام ایشین فٹبال کنفیڈریشن نے کیا ہے اور پاکستان فٹبال فیڈریشن کی نئی باڈی کو تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیا اور اس کے نتیجے میں پاکستان اور فلپائن کے درمیان فٹبال سیریز بھی ٹھپ ہو گئی۔ ابھی اس صدمے سے نہیں نکلے تھے کہ دوسری خبر نے نیند اڑا دی جس میں میرپور آزادکشمیر کے سٹیڈیم میں جہاں ملکی سطح تک کے کھیل ہوتے ہیں‘ بجلی کا بل ادا نہ کرنے پر بجلی کاٹ دی گئی ہے۔ محکمہ برقیات آزادکشمیر کی پھرتیوں پر قربان جایئے جو دس سال اس بات سے بے خبر رہا کہ میرپور میں کوئی سٹیڈیم بھی ہے جہاں خوب لائٹیں جلتی ہیں۔ مگر ان کا بل نہیں لیا جا رہا۔ پی سی بی والے بھی مست رہے کہ مفت کی بجلی مل رہی ہے تو بل کا کیوں پوچھیں۔ اب ان دونوں کی آنکھ کھلی تو محکمہ برقیات آزادکشمیر نے جھٹ سے دس سال کا بل 80لاکھ روپے بھیج دیا اور بل ادا نہ کرنے پر سٹیڈیم کی بجلی کاٹ دی ہے اب انتظامیہ کو بھی بجلی کے جھٹکے لگ رہے ہیں ۔ پاکستان کرکٹ بورڈ ہر سال سٹیڈیم کیلئے چھ اعشاریہ تین بلین دیتا ہے۔ وہ کس کھوکھاتے میں جاتے ہیں۔ اب اس کے حساب کتاب کی باری آنی ہی چاہئے۔