تاریخ پر تاریخ… آخر کب تک؟
جہاں طاقت غاصب ہو وہاں عدالت ہی ہوتی ہے جو طاقت اور غاصب کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے اور حقدار کا حق دلواتی ہے کیونکہ عدالت نے ہمیشہ قانون کی حکمرانی بنیادی حقوق کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہوتا ہے لیکن عدالتوں میں تاریخ پر تاریخ کا سامنا اور مقدمات کا التوا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یقیناً کسی بھی گورنمنٹ کی ترجیحات میں تعلیم، صحت اور عدالتی نظام کی بہتری نہ رہی ہے اور عدلیہ ویسے بھی حکومتی ضد اور بے لگام گھوڑوں کو لگام دیتی ہے اس لئے کوئی بھی طاقت ور شخص نہیں چاہتا کہ عدلیہ جیسے ادارے کو محفوظ کیا جائے اور وہ اسے غریب کے مقابلے میں جا کھڑا کر دے لیکن ہمیں ایسے اقدامات کرنے ہیں جس سے لوگوں کا اعتماد بحال ہو کیونکہ جب ہم خبر پڑھتے ہیں یا میری طرح بہت سے وکلاء دیکھے ہیں کہ بیس سال کے بعد کوئی شخص با عزت بری ہوتا ہے تو بہت سے تنقید کرتے ہیں جس سے بہت سے عام لوگوں کو عمومی اور وکلاء کو خصوصی تکلیف ہوتی ہے۔ ویسے میرا یقین ہے کہ عدالتیں نہ کسی جج کے لئے ہوتی ہیں اور نہ ہی کسی وکیل کے لئے بلکہ یہ معاشرے میں فریادیوں کے لئے ہوتی ہیں اور ہمیں اس عام فریادی کی داد رسی کیلئے کچھ کرنا ہو گا ورنہ تاخیری حربے استعمال کر کے ایک بار پھر طاقتور جیت جائے گا۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ انصاف ایک طرف انتہائی مہنگا یعنی وکلاء کی فیس اور دیگر عدالتی اخراجات اور دوئم انصاف بہت تاخیر سے ملتا ہے کہ فریادی کا بہت کچھ کھو چکا ہوتا ہے۔ گذشتہ دونوں چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نظام کی بہتری کے لئے تجاویز طلب کیں یہ بہت اچھی بات ہے ورنہ چیف جسٹس کے سامنے دو راستے تھے۔ ایک محفوظ طریقہ زندگی میں کچھ نیا نہ کیا جائے اور پرامن طریقے سے ریٹائر ہو جائیں۔ گولف کھیلیں اور ہجرت کریں۔ یا دوسرا طریقہ یہ کہ ایسا کام کریں کہ رہتی دنیا یاد رکھے اور ہر آنے والے فریادی کو اس کی سوچ سے پہلے انصاف مل جائے۔ چنانچہ آج چیف جسٹس کو جو عزت ملی، اس انکی محنت کے علاوہ کسی کی دعا اور اثر ضرور ہے۔ اور لوگوں کی امید بھی ہے کیونکہ اس سے بڑا عہدہ نہیں، عزت نہیں چنانچہ چند گزارشات چیف جسٹس کی خدمت میں پیش کرتا ہوں تا کہ لوگوں کو جلد انصاف مل سکے… ہم دیکھتے ہیں کہ عدالتوں میں جو مقدمات آتے ہیں ان میںمیں فیملی، فوجداری، رینٹ، سول مقدمات زیادہ تعداد میں ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے رینٹ کو لے لیتے ہیں۔ اس میں ضروری ہے کہ ایگریمنٹ دو طرفہ ہو اس وقت میرے پاس بطور امانت جگہ ہے اور کرایہ بر وقت ادا کروں گا۔ اگر خالی نہ کریں تو مالک پٹیشن دائر کرے اور کرایہ دار کو عدالت طلب کرے۔ اسی طرح فیملی معاملات میں نکاح کے وقت سامان جہیز کی فہرست نکاح نامے پر درج کی جائے۔ زیورات کی تفصیل لکھی جائے اور اس وقت یہ بھی درج کیا جائے کہ ناچاقی کی صورت میں ثالث کون ہو گا۔ اسی طرح فوجداری مقدمات میں ایف آئی آر کے بعد جب مقدمہ آتا ہے تو سب فریقین کو نقول تقسیم کی جاتی ہیں اور پھر گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے جاتے ہیں اور ملزم کے وکیل پر جرح ہوتی ہے۔ اس کے لئے صرف تین ماہ کے لئے جاتے ہیں کہ وہ جرح مکمل کرے ان مقدمات جن میں ملزمان جیل میں ہوں، ان کی اپیلیں بھی روزانہ کی بنیاد پر سنی جائیں اور اس کے لئے اگر خصوصی طور پر ہفتہ اتوار کو بھی عدالت لگا لی جائے تو کوئی حرج نہیں۔ سول مقدمات اور فوجی مقدمات میں اپیلیں ڈسٹرکٹ اور سیشن جج کے پاس ہوں مگر حکم امتناہی، ضمانتیں وغیرہ کی اپیلیں نہ ہوں، اسی طرح رینٹ اور فیملی معاملات کی اپیلیں بھی ڈسٹرکٹ جج کے پاس نہ ہوں۔ قتل کے مقدمات ترجیحی بنیادوں پر سماعت ہوں، چھ ماہ سے زیادہ ڈسٹرکٹ سیشن کورٹ میں نہ چلے اور اسی طرح تین ماہ کے اندر ہائی کورٹ فیصلہ کرے اور سپریم کورٹ ایک ماہ میں فیصلہ کرے ایک دن بھی اس سے آگے نہ ہو تا کہ مقدمہ کو بے جا تنقید سے بچایا جا سکے۔عدالتوں میں ہڑتال کی وجہ سے صارفین کا بہت نقصان ہوتا ہے اس لئے مقدمات کے فیصلے مقررہ وقت پر ہو جائیں تو فریقین کا بھلا ہو جائے۔
بلاشبہ چیف جسٹس بہت باصلاحیت ،باشعور، تجربہ کار اور وژن رکھنے والے انسان ہیں جن کی صلاحیت، ذہانت اور کمٹمنٹ کی داد ان سے اختلاف رکھنے والے بھی کھلے دل سے دیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ عدلیہ کی عزت سانجھی اور مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ہم سب کومل کر اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھنا ہو گا اور جہاں ضرورت ہو وہاں پر قانون میں ترامیم کے لئے پارلیمنٹ کو کہا جائے ۔ یقیناً تمام لوگ چیف جسٹس کے اس قدم کے ساتھ ہیں۔آج کی نوجوان نسل کرپشن کے خلاف ہے اور پاکستانی نیشن زندہ قوم ہے۔ یہ اچھے اقدام کو صرف اچھا ہی نہیں کہتی بلکہ اس کے لئے ہر قسم کی قربانی کو بھی تیار ہے۔ ہمیں دوسروں کی طرف نہیں دیکھنا بلکہ خود کچھ کرنا ہے۔