دسمبر 2017ء میں ایران کے شہر مشہد میں اچانک پھوٹ پڑنے والے فسادات پوری دنیا کیلئے حیران کن تھے‘ پرتشدد مظاہرے تیزی سے ایران کے دیگر شہروں میں بھی پھیلتے چلے گئے۔ مغربی میڈیا نے مظاہروں کو ایران کے روحانی پیشوا اور قابل قدر شخصیت آیت اﷲ علی خامنائی کی ایرانی نظام پر گرفت اور انکی سخت گیر پالیسیوں کیخلاف احتجاج قرار دیا حیرانی کی بات یہ تھی کہ گزشتہ انتخابات میں بھاری عوامی حمایت سے منتخب ہو کر آنیوالے ایرانی صدر حسن روحانی کو بھی احتجاج کے دوران شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ایران کی اس داخلی صورتحال میں امریکی دلچسپی اور امریکی صدر ٹرمپ کے بیانات نے ثابت کر دیا کہ ایران میں حکومت کیخلاف اچانک برپا ہونیوالے فسادات پر مبنی احتجاج کے پیچھے امریکی مہربانی کارفرما ہے تو پھر سوال ابھرتا ہے کہ ماضی میں تلخ ترین کشیدہ حالات کے دوران بھی امریکہ نے تہران میں حکومت الٹانے کے حوالے سے کھل کر اپنی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ 2009ء میں بھی ہنگامے ہوئے مگر امریکہ نے بیان بازی نہیں کی تھی پھر اب ایسا کیا ہو گیا ہے کہ ایران میں ایک منتخب حکومت کیخلاف احتجاج کی بنیاد پر سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرنے کی سطح پر آ گیا حالانکہ اس طرح کے پرتشدد مظاہرے آئے روز دنیا کے مختلف ممالک میں رونما ہوتے رہتے ہیں۔
اصل میں امریکہ افغانستان کی صورتحال میں بری طرح پھنس چکا ہے وہاں امریکہ کو ہونیوالا جانی نقصان اور اربوں ڈالر ماہانہ کے اخراجات اپنی جگہ، امریکی حکمرانوں کی اصل مشکل افغانستان میں امریکی افواج کی مکمل ناکامی ہے‘ خود کو دنیا کا طاقتور ترین ملک سمجھنے والا امریکہ دنیا کو افغانستان میں درپیش شکست کی وجوہات بتانے سے قاصر ہے۔ 2001ء سے لیکر 2014ء تک 13 برس کے طویل عرصہ میں اسے نیٹو سمیت 54 ممالک کی عملی مدد حاصل تھی۔ ایک لاکھ چالیس ہزار کی نفری پر مشتمل اس کی اپنی فوج 30ہزار سے زائد دیگر ملکوں کی افواج ملا کر یہ تعداد تقریباً پونے دو لاکھ جا بنتی تھی اور اسلحہ و دیگر گولہ بارود ایسا کہ صرف طیاروں کی گھن گرج سن کر حواس گم اور بم دھماکوں کی گونج ایسی کہ کمزور دل انسان کی روح جسم چھوڑ کر چلی جائے۔ کروز‘ ٹام ہاک میزائلوں اور ڈیزی کٹر بموں سے پھیلنے والی تباہی کے علاوہ امریکہ اور نیٹو نے افغانستان میں کلسٹر بموں کی ایسی اقسام بھی استعمال کیں جو کیمیائی مواد سے لیس تھے جن کے استعمال پر اقوام متحدہ میں پابندی لگائی جا چکی ہے۔ 2013-14 کے درمیان امریکی اور اسکی اتحادی افواج کا بڑا حصہ افغانستان سے رخصت ہو گیا تو امید بندھی کہ باقی ماندہ امریکی و نیٹو فوجی بھی جلد یا بدیر افغان علاقہ چھوڑ جائینگے اور وہاں امن کا قیام ممکن ہو سکے گا لیکن ٹرمپ کے اقتدار سنبھالتے ہی امریکی حکام کی طرف سے پاکستان کو دھمکیوں اور ٹرمپ کے غیر اخلاقی لب و لہجے میں پاکستان کو افغانستان میں امریکی شکست کا ذمہ دار ٹھہرائے جانے کی مسلسل رٹ کے بعد آثار نظر آنے لگے تھے کہ امریکی افغانستان میں مستقل قیام کا ارادہ رکھتا ہے اور پاکستان سے چاہتا ہے کہ وہ اسکے افغانستان میں اس کے تحفظ کی جنگ لڑے۔ پاکستان نے امریکی خواہش پر لبیک کہنے سے انکار کیا تو ٹرمپ نے پاکستان کو دباؤ میں لانے کیلئے بھارت کو جنوبی ایشیا کا چودھری بنانے اور افغانستان میں اسے مزید کردار سونپنے کا اعلان کر کے اپنی طرف سے زبردست چال چلی لیکن پاکستان نے واضح کر دیا کہ اگر بھارت نے مشرقی یا مغربی سرحد سے پاکستان کیخلاف کسی بھی جارحیت کا ارتکاب کیا تو اسے ایسا جواب دیا جائیگا جسے بھارت کی نسلیں یاد رکھیں گی۔ پاکستان کی طرف سے کسی بھی طرح کے دباؤ اور دھمکیوں کو خاطرمیں نہ لانے اور بدلے ہوئے رویئے سے مشتعل ہو کر امریکی صدر ٹرمپ نے عجلت میں پاکستان کے ساتھ عسکری تعاون ختم اور پاکستان کی تمام امداد معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔ پاکستان نے ان پابندیوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے دہشت گردی کیخلاف جنگ کے نام پر پاکستان کو گزشتہ سولہ برسوں میں دی جانے والی امداد کا حقیقی کچا چھٹا کھول کر سامنے رکھ دیا اور دنیا کو بتا دیا کہ امریکہ 2001ء سے افغانستان تک عسکری و سول رسائی کیلئے پاکستان کی فضائی حدود اور زمینی راستے بلامعاوضہ استعمال کرتا چلاآ رہا ہے۔ پاکستان کی طرف سے پابندیوں کے اعلان کو خاطر میں نہ لانے اور پاکستانی عوام میں پائے جانیوالے ردعمل اور حکومت سے امریکہ سے تعلقات کے خاتمہ کے عوامی دباؤ نے امریکہ میں بے چینی پیدا کی تو بہت سے سابق امریکی سفارت کار بشمول فوجی جرنیلوں نے پاکستان سے متعلق امریکی صدر کے رویئے اور اسکی طرف سے پابندیوں کے اعلان کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا جس میں ایک بات واضح تھی کہ اگر پاکستان نے امریکہ کو افغانستان تک فضائی اور زمینی رسائی دینے سے انکار کر دیا تو افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کی حالت تالاب میں بند ڈولفن مچھلی جیسی ہو جائیگی۔ اسکے بعد وہاں ایک نئی بحث شروع ہو گئی کہ کیا امریکہ کے پاس افغانستان تک رسائی کبلئے کوئی دوسرا متبادل راستہ نہیں ہے؟ اس سوال پر غور کریں تو ساری بات سمجھ آ جائیگی کہ امریکہ ایران میں پرتشدد فسادات کی حمایت کیوں کرتا رہا۔ امریکہ ایران میں حکومت کی نہیں بلکہ حکومت کا نظام اسلام کے مطابق چلانے والے چہروں کی تبدیلی کیوں چاہتا ہے۔ امریکہ کیلئے ممکن نہیں کہ وہ روس و مشرقی یورپ یا وسط ایشیائی ریاستوں کے ذریعے افغانستان تک پہنچے۔ امریکہ روس و چین پر نظر رکھنے کیلئے افغانستان میں اپنے مستقل قیام کا منصوبہ بنا چکا ہے لیکن وہاں تک رسائی کیلئے وہ پاکستان کے زمینی و فضائی راستے استعمال کرنے پر مجبور ہے۔ چین کی تیز رفتار معاشی ترقی میں اسکی پاکستان کے راستے گوادر کی بندرگاہ تک تجارتی رسائی چند برسوں میں بیجنگ کو واشنگٹن پر بالادستی دلانے کا سبب بن سکتی ہے، اسے ناکامی سے دوچار کرنے کیلئے امریکہ کی پہلی ضرورت افغانستان تک آسان رسائی ہے جو پاکستان کے متبادل کے طور پر اسے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے ذریعے مل سکتی ہے۔ ایران نے 2001 سے امریکی سرپرستی میں افغانستان کو پاکستان کیخلاف دوسرے محاذ کا درجہ دے رکھا ہے اور وہ آج بھی افغان سرزمین کو پاکستان کی سلامتی کیخلاف استعمال کر رہا ہے۔ اس نے ایران سے دوستانہ تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران کو بھی دھوکے میں رکھا اورایرانی ساحلی شہر چاہ بہار کو پاکستان کیخلاف بیس کیمپ بنا لیا جس کا اقرار پاکستان کی گرفت میں موجود بھارتی نیوی و ’’را‘‘ کا اعلیٰ افسر کلبھوشن یادیو کر چکا ہے۔
پاکستان گزشتہ سولہ برسوں میں دہشت گردی کے ہاتھوں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والا دنیا کا واحد ملک ہے۔ اسی نقصان نے پاکستان کو اپنی مغربی طویل سرحد کو خاردار تاروں کی دیوار و خندق کے ذریعے بند کرنے پر مجبور کیا حالانکہ مغرب میں موجود دونوں برادر اسلامی ملک ہیں جن کے ساتھ پاکستان کے عوام صدیوں سے مذہبی و تہذیبی بندھن میں جڑے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں امریکہ کی ایران کو بدامنی یا فسادات کے ذریعے غیر مستحکم کرنے کی کوشش پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے مترادف ہے۔