پروفیسر بشر دوست بام خیل
شامی روڈ پر رات دس بجے بہت بڑا بھوت بنگلہ تاریکیوں میں ڈوبا اپنی عظمت کی کہانی کو رات کی کالی چادر میں لپیٹنے کی کوشش کر رہی تھی اوراس کے اندر قیامت کی خاموشی اور گپ اندھیرا چھایا تھا تو بڑے خستہ حال گیٹ کے سامنے کھڑے ہو کر تجسس کی انکھ کھلی اور جو دیکھا وہ کچھ یوں ہے 1901میں ایک نونہال عبدالقیوم چترال میں عبدالحکیم تحصیلدار کے گھر پیدا ہوا ان کا تعلق بارہ مولا کشمیر سے تھا . جب یہ لڑکا پشاور ہائی سکول میں نمایاں پوزیشن لیتا ہے تو والدین اسے اسلامیہ کالج کی بجائے دور ہندوستان میں علی گڑھ کالج بھیج دیتے ہیں جہاں سے وہ تعلیم حاصل کر کے مزید تعلیم کے لئے انگلستان کا رخ کرتا ہے اور وہاں سے بیرسٹر بن کر پشاور لوٹ اتا ہے اور اپنے پیشے و سیاست میں الجھ کر اپنے صوبہ میں نام کماتا ہے اور ہر جگہ باچا خان اور گاندھی جی کے ساتھ نظر اتا ہے اور پختونوں کی محبت میں ایک انگریزی کتاب بھی لکھ لیتا ہے (گن اینڈ گولڈ ان پٹھان )جس میں باچا خان کو ہیرو کے طور پر پیشک کرتا ہے اور واقعی وہ تھا بھی اپنی قوم کاہیرو ا لیکن اس کتاب میں وہ کانگرس و گاندھی جی کی بھی تعریفوں کے پل باندھ لیتا ہے .اس کتاب کے ساتھ بعد میں کیا ہوا یہ بہت دلچسپ واقعہ ہے۔کانگرس میں ایسے تعلیم یافتہ تیز قابل اور اپنی مٹی پر مرمٹنے والے جوانوں کی ضرورت تھی اور بہت جلد لاکھوں لوگوں میں اپ 1940 میں کانگرس کی سیٹ پر مرکزی اسمبلی کے رکن بن گئے اور وہاں خوب تقاریر تجاویز اورکام کئے لیکن سب سے اہم بات پشاور یونیورسٹی کے لئے1940 میں آواز اٹھاءلیکن کامیاب نہ ہوئے لیکن یہ عہد کر گئے کہ یہ میرا مشن ہے یہ مقصد ہے اور یہ ارزو ہے اوراسے ہر صورت پورا کروں گا.صوبہ سرحد یعنی موجودہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں کانگرس کی حکومت تھی اور ڈاکٹر خان صاحب وزیر اعلی تھے اور جب پاکستان بنا تو قائد اعظم نے سب سے پہلے کانگریسی حکومت گرائی اپنے بندوں کی جماعت اکٹھا کیا اور قیوم خان کی برسوں کی وفاداری خرید کر سرخ رنگ کی جگہ سبز رنگ کی چادر پہن لی اور میری کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے .قیوم خان وزیر اعلی بن گئے تو پورا رعب دبدبہ علم واختیار ہاتھ میں اگیا اور ایسے اقدامات کئے جو لکھنے کے قابل ہیں لیکن ایسی فاش غلطیاں بھی کیں جن کی وجہ سے اج ان کی تصویر پر خون کے دھبے نظر ارہے ہیں.کانگرس کو ہٹا کر یار جب تخت خیبر پختونخواہ پر بیٹھے تو سب سے پہلے اپنی کتاب پر پابندی لگائی اور یہ تاریخ میں انوکھا واقعہ تھا کہ جب کسی مصنف نے اپنی ہی کتاب پر پابندی لگائی ہو کیونکہ اس کتاب میں اس نے جن ہیروز کا تذکرہ و تعریف کے پل باندھے تھے اب وہ ان مسیحاوں کے سر کا دشمن اور نظرئیے کا قاتل تھا اور وہ ان کی نظر میں غدار تصور ہوتے تھے اور یہاں سے انسان کی فطرت کا پتہ چلتا ہے کہ کیسے کرسی صدارت پر بیٹھ کر اختیارات ہاتھ میں اتے ہی اسے دوسرے لوگ حقیر نظر اتے ہیں .قیوم خان کو اطلاع ملی کہ پنجاب نے گندم اٹک کے مقام پر روک لی ہے تو اس نے اپنے وزیر کو بلایا اور انگریزوں کے دور میں نتھیا گلی کی طرف سے مری کوجو پانی کا بڑا پائپ ہے اسے بند کر دیا.گرمی کاموسم تھا اور وزیر اعظم بھی وہیں تھا تو کب پانی بند ہوا تو چیخیں نکلیں اور جب تک گندم کی ٹرکیں روانہ نہ ہوئیں تو پانی بند تھا اور پہلی دفعہ اس مے پنجاب کو یہ سبق سکھایا تھا.اسلامیہ کالج کی رجسٹریشن پنجاب یونیورسٹی کے پاس تھی اور وہ مخصوص طلبہ کی رجسٹریشن کراتے تھے اور جب ایک دفعہ بچوں کی رجسٹریشن نہ ہو تو طلبہ نے شکایت کی اور اپ کراچی گئے سیدھا وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دفتر گئے اور اچانک نعرہ لگایا ...."پختونستان زندہ باد "وزیر اعظم اٹھے اور کہا کہ خان ہوا کیا ؟وزیر اعلی قیوم خان نے جب یہ کہا کہ اگر اپ کا رویہ ہمارے ساتھ ایسا ہو توپھر ہم یہی تحریک برپا کریں گے .وزیر اعظم نے کہا کہ خدا کے لئے یہ اگ نہ لگاو اور دو یونیورسٹیوں کے برابر فنڈز لے لواور یوں 1952 میں پشاور یونیورسٹی قائم کی لیکن جس طرح اسلامیہ کالج کے بانی کا ذکر ہوتا ہے ایسا ہی اس بانی جامعہ پشاورکا ہونا چاہیے .ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ کانگرس حکومت تھی عام غریب کسب گر لوگ ان کے عہدیدار ورکرز اور ان پر مر مٹنے والے ہزاروں کی تعداد میں تھے لیکن ان کے نام زمین کا انتقال نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ یہ انگریز کا حکم تھا لیکن خدائی خدمتگاروں نے بھی غریبوں کواسی طرح محروم رکھا لیکن جب قیوم خان ائے تو سب سے پہلے یہ حکم منسوخ کیا اور حکم دیا کہ ہر شخص زمین اپنے نام پر خرید سکتاہے اور یہ دراصل سماجی انقلاب تھا جس نے بعد میں بہت اچھا اثر معاشرے پر ڈالا .نوکریوں میں مخصوص ذات پات خاندانوں کا فرق مٹا ڈالا اور سکولوں میں بڑے چھوٹے کی تفریق کے لئے ایک رنگ کا کالا ملیشا کپڑارائج کیا تاکہ خان اور دہقان ایک ہی یونیفارم میں بیٹھ کر علم حاصل کرے اور غریب کے بچے کواحساس محرومی نہ ہو جس سے واقعی بہت بڑا معاشرتی فرق ختم ہوا.1954 میں مرغز ائے جہاں کے ملکانان مسلم لیگ میں مضبوط کھڑے تھے اور وہاں بڑے حجرہ میں بٹن دبا کر بجلی کا افتتاح کیا اور پھر یہی جگہ مسلم لیگ کا مرکز بنا یہاں تک کہ اسد قیصر کی عروج نے ان سب کومشرف بہ عمران کیا .باتیں بہت ہیں قصے بے شمار ہیں اور ڈاکٹر ظہور اعوان نے ان پر کتاب لکھی ہے جوبقول پروفیسر ابراھیم اب ناپید ہے اور جس کا نام اس نے خان اعظم رکھا کیونکہ اس وقت جب قیوم خان کا طوطی ہر طرف بول رہا تھا توپشاور میں اسے خان اعظم کے نام سے پکارا جاتا تھا. بے شمار خوبیوں کے درمیان یہ خوبی بھی موجود تھی کہ جب کرسی پر نہیں ہوتے تو اپنی پریکٹس جاری رکھتے اور کبھی بھی زندگی میں کوئی ایک مقدمہ نہیں ہارا اور ہمیشہ جیت اس کے ہاتھ رہی.تیز تھا سرپھرا تھا مسلسل کامیابیوں نے اسے غرور و تکبر میں مبتلا کیا تھا اور اسی گھمنڈ میں جب اس کا ہی پرانا مشر بابائے پختون قوم امن کا داعی پختونوں کا مسیحا باچا خان گرفتار ہوا اورلوگ گھروں سے بے تحاشا نکلے تو اس شخص کے حکم سے ان پر گولیوں کی بارشیں برسائیں اور خون کی ندیاں بہائیں اور پختونوں کی سرزمین پر کربلا برپا کیا اور یہی نہیں بلکہ چوک یادگار میں کھڑے ہوکر کہا کہ اگر گولیاں ختم نہ ہوتیں تو میں ایک کو نہ چھوڑتا بلکل مشرف کی طرح جس نے طاقت کے نشے میں کراچی کے اندر وکیلوں پر گولیاں برسائیں اور نواب اکبر بگٹی کو غار کے اندر بمباری سے مار ڈالا.قیوم خان نے ازادی کشمیر میں اپنا بہت بڑا کردار ادا کیا تھا اور یہی سے اس نے قبائلیوں کومنظم کرکے اگے بھیج دیا تھا اور اگر وہ ایسا نہ چاہتا تو اس کی مدد کے بغیر ممکن نہ تھا.ورسک ڈیم اور پشاور یونیورسٹی اسی کے کارنامے ہیں جو اس نے اہل پشاور و صوبہ پر کئے .وہ1972 سے 1978 تک وزیرداخلہ بھی رہے اور اپنی وزارت میں وہی رعب و دبدبہ پھر قائم نہ رکھ سکاکیونکہ وقت کی رفتار جوان خون کی تیزی جزبات تجربات اور مشاہدات نے اسے بہت کچھہ سکھایا تھا اور اب وہ بوڑھا شیر بنا تھا لیکن افسوس اس پات پر تھاکہ اس شیر کی کوئی اولاد نہ تھی اور جب شیر رخصت ہوا تو سب نے اسے بھلادیا .رات تھی اندھیرا تھا خیالات تھے اور بار بار یہ سوچ و فکر ستائے جا رہی تھی کہ کاش قیوم خان جیسے شخص سے یہ غلطی نہ ہوتی اور وہ اپنے ہی قوم کے خون سے اپنے ہاتھ اوروں کے لئے نہ رنگتا تو آج شاید وہ ہمارے صوبہ میں اتنا گمنام نہ ہوتا کیونکہ وہ مسلم لیگ کا مرکزی صدر بھی رہ چکا تھا اس نے بڑے کام بھی کئے لیکن بابڑہ کا واقعہ شاید اس کی شہرت کے لئے اس کے گلے کا وہ ہار بن گیا کہ ہمیشہ وہاں لٹکتا رہے گا لیکن اس کے ساتھ اس کے بڑے کام بھی یاد کئیے جائیں گے !!