فرید پراچہ کا انسداد سود سیمینار سے خطاب

میں شکر گزار ہوںر افتخار سندھو صاحب کا جنہوں نے وٹس ایپ گروپ میں ہونے والی ایک بحث پر گفتگو کیلئے احباب کو جمع کیا۔ ہمارے پیش نظر سود کی پیچیدگیوں پر بحث کرنا ہے ۔سود کے سلسلہ میں جو کچھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے ایک وعید ہے اس کو تو سب سمجھتے ہیں لیکن کچھ سوالات اٹھتے ہیں اور گروپ میں بھی اٹھائے گئے تھے۔
ابھی آغاز میں ایک نو عمر بچے حافظ عفان بن عمار نے تلاوت کی ہے ۔ سود پرجتنے سوالات اٹھتے ہیں قرآن کی اس تلاوت نے ان کا جواب دے دیا ہے ۔یہ سوال کہ تجارت کیلئے جو قرض لیا جاتا ہے کیا وہ بھی رباء ہے ۔؟اس کا جواب بھی قرآن پاک نے دے دیا ہے ’’یہ کہتے ہیں کہ تجارت بھی تو سود کی طرح ہے ‘‘اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام کیا ہے ‘‘اس میں بڑا فرق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک چیز کو حرام اور دوسری کو حلال کیا ہے ۔
ایک بحث جو ہمارے گروپ میں بھی ہوتی رہی ہے کہ مہاجن کا جو سود تھا لوگ اس سے اپنے استعمال کیلئے قرض لیتے تھے یہ جتنی بھی وعید ہے صرف اس کے بارے میں ہے ۔یعنی جس نے قرض لینا ہے اس نے بھی تو فائدہ اٹھانا ہے ۔تو ایک مقررچیز مہاجن کو بھی ادا ہونی چاہئے ۔پھر ایک سوال یہ بھی اٹھا یا جاتا ہے کہ اس زمانے میں تو تجارت کے ساتھ سود کا کوئی تعلق نہیں تھا ۔یعنی تجارتی قرض سود نہیں تھا ۔اس پر عرض کرونگا کہ قرآن پاک نے بھی قریش کے بارے میں کہا کہ ان کے کاروان چلتے تھے۔ گرمیوں کے کاروان ایران اور یمن کی طرف اور سردیوں کے شام اور روم کی طرف تو اس کے بارے میں پوری تاریخ میں ایک بڑی واضح بات تھی جو احادیث میں بھی موجود ہے ۔وہ اسی نظام کے تحت اپنا مال لیکر جاتے تھے اور منافع کماتے تھے ۔ ابوسفیان اور دیگر کی قیادت میںمکہ سے جو کاروان جاتے تھے وہ اسی انداز کے تھے ۔ حضرت عباس ؓ کے جس سود کے معاف کرنے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر فرمایاتھا کہ میں اپنے خاندان اور اپنے چچا کا سود سب سے پہلے معاف کرتا ہوں ،یہ تجارتی سود ہی تھا۔جو آیات تلاوت کی گئی ہیں ان میں اللہ نے واضح کردیا ہے کہ سودخور کے خلاف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے اعلان جنگ ہے ۔یہ ایک مقدمہ تھا جو سامنے آیا کہ جب بنو ثقیف طائف والوں نے اسلام قبول کرلیا تو ان کے بڑے بڑے سرداروں عبد یمین،مسعود اور ربیعہ وغیر ہ جنہوں نے بنو مغیرہ سے قرض لیا ہوا تھا ،اس کا سود دینے سے انکار کردیا ۔ان لوگوں نے اپنی کسی حاجت کیلئے نہیں بلکہ تجارت کیلئے قرض لیا تھا ۔وہ امیر لوگ اور سردار تھے ،سوددے بھی سکتے تھے مگر انہوں نے اللہ کے حکم کی اطاعت میں سود دینے سے انکار کردیا تھا ۔انہوں نے کہا کہ سود حرام ہوگیا ہے اس لئے ہم نہیں دیں گے ۔یہ معاملہ حضرت کعب بن اسید ؓ کے سامنے پیش ہوا جن کو حضور ﷺ نے مکہ کا گورنر بنایا تھا۔انہوں نے یہ معاملہ اللہ کے نبی ﷺ کے پاس بھیجا ۔اس وقت سود کے حرام ہونے کی آیات نازل ہوچکی تھیں ۔حضرت زبیر بن العوام ؓ بڑے جلیل القدر صحابی ہیں ،ان کے پاس لوگ اپنی امانتیں رکھتے تھے ۔وہ لوگوں سے کہتے تھے ،آپ میرے پاس بطور امانت رکھنے کی بجائے یہ رقم مجھے قرض دے دو۔امانت اگر چوری یا ضائع ہوجاتی ہے تو جس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے اس پر کوئی تاوان نہیں ہے لیکن اگر قرض ہوا تو وہ واپس دینا پڑتا ہے ۔حضرت زبیر ؓ قرض کی یہ رقم تجارت میں لگاتے تھے۔ جب وہ فوت ہوئے تو ان کے ذمہ 22لاکھ درہم ( جو آج کے حساب سے تقریبا 6کروڑ )بنتا ہے ،ادا کیا گیا ۔
حضرت امام ابو حنیفہ ؒ نے بھی اسی طرح اس دور کے حساب سے پوری ٹیکسٹائل انڈسٹری لگائی ۔لوگوں سے رقم لی اور انہیں مضاربت کے حساب سے ادائیگیاں کیں۔قرآن پاک نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جس کو تم نے قرض دیا ہے وہ تنگ دست ہوتو اسے معاف کردو۔قرض دینے کا سلسلہ صرف تنگ دست کیلئے ہی نہیں بلکہ مالدار کیلئے بھی ہے ۔
بنک انٹرسٹ کے بارے جو ایک بحث ہے۔ مہاجن اب منظم ہو گیا ہے ایک آدمی کچھ لوگوں کو قرض دے اور اس پر سود لے۔ ان کے خلاف تو اعلان جنگ ہے اگر وہ ایک ادارہ یا کمپنی بن جائے اور منظم ہو کر اس چیز کو پھیلا دے تو اس کے بارے میں بھی وہی حکم ہے جو فرد واحد کے لیے ہے۔ حجم بڑھ جانے سے اس کے حرام ہونے میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ حرام چیز کم ہو یا زیادہ وہ حرام ہے جس طرح شراب ایک قطرہ ہو یا ڈرم وہ حرام ہی رہے گی۔ قرآن و حدیث میں ایسی کو ئی نص موجود نہیں کہ تجارت کے لیے دیے گئے قرض پر سود لیا جا سکتا ہے۔ حضورؐ نے سود کے بارے میں بڑی سخت وعید کی اور فرمایا کہ سود کے ستر گناہ ہیں اور چھوٹے درجے کا گناہ یہ ہے جیسے کوئی اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کرے۔ اتنی بڑی بات چند مہاجنوں یا سود خوروں کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ پورے سودی نظام کے بارے میں ہے، پوری سودی معیشت کے بارے میں ہے۔ بارہ سو سالہ مسلم تاریخ کے اندر سودی معیشت کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ اس کے بعد یہ خرابیاں شروع ہوئیں۔
قرآن پاک نے تجارت اور سود کا جو فرق بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ تجارت کے اندر ایک آدمی مساویانہ انداز میں نفع اور نقصان کے اندر شامل ہوتا ہے۔ لیکن جو سود پر رقم دیتا ہے وہ صرف نفع میں شامل ہوتا ہے نقصان پورے کا پورا کاروبار کرنے والے کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اگر کوئی مال خراب یا ضائع ہو جاتا ہے اس میں وہ شامل نہیں ہوتا۔ قرض لینے والے کو صرف ایک مہلت ملتی ہے وہ اس کے حق میں چلی جائے یا خلاف چلی جائے۔
تجارت کے اندر جو نفع لیتا ہے وہ ایک دفعہ لیتا ہے جب کہ سود کا سلسلہ ملٹی پلائی ہوتا رہتا ہے۔