جہانگیر ترین صرف کامیاب سیاست دان ہی نہیں بلکہ کامیاب کاروباری شخصیت بھی ہیں۔ انہوں نے کاروبار اور سیاست دونوں جگہ محنت سے اپنا مقام بنایا ہے۔ آپ ان کے طرز سیاست سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے دوسروں کی ٹانگیں کھینچ کر یا دوسرے کے کندھے استعمال کر کے میدان سیاست میں جگہ بنائی ہے بلکہ انہوں نے بہتر فیصلوں، تعلقات اور وسائل کو بہتر انداز میں استعمال کرتے ہوئے سیاسی میدان میں جگہ حاصل کی ہے۔ آج اگر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے اور اگر عمران خان وزیراعظم ہیں تو اس کامیابی میں جہانگیر ترین کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کو ملک کی بڑی اور طاقتور سیاسی جماعت بنانے کے لیے انہوں نے دن رات محنت کی ہے۔ ان کے ساتھ اور لوگ بھی اس جدوجہد کا حصہ رہے ہیں لیکن جہانگیر ترین کا نام نمایاں ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے وہ جماعت کے سربراہ عمران خان کے نہایت قریب تھے تو انہوں نے قریب رہنے کا حق بھی ادا کیا۔ جو ذمہ داری انہیں دی گئی اسے بہتر طریقے سے نبھانے کی کوشش کی۔
2013 سے 2018 کے دوران طرح کی سیاسی سرگرمیوں میں جہانگیرترین نمایاں نظر آتے ہیں اور 2018 کے عام انتخابات کے بعد حکومت سازی میں بھی جہانگیر ترین نے اپنی جماعت کے بہتر مستقبل اور عمران خان کو وزارت عظمی تک پہنچانے کے لیے جو کام وہ کر سکتے تھے دل و جان سے کیا۔ کسی بھی اکیلے شخص کے لئے یہ کام آسان نہیں ہوتا لیکن جہانگیر ترین نے صرف اور صرف ملک میں تیسری سیاسی قوت اور پاکستان کو روایتی طرز سیاست سے نجات دلانے کے لیے عمران خان کی قیادت میں اپنا کردار احسن انداز میں نبھایا۔ دو ہزار تیرہ سے دو ہزار اٹھارہ کے دوران بھی انہوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین پر ذاتی حملے کرنے یا سخت زبان استعمال کرنے کے بجائے مہذب گفتگو کا راستہ ہی اختیار کیا۔ جتنا لمبا عرصہ وہ عمران خان کے ساتھ ملکر اپوزیشن کرتے رہے بدقسمتی سے کپتان کو وزیراعظم ہاؤس پہنچانے کے بعد وہ اتنا لمبا عرصہ ان کے ساتھ نہیں چل سکے۔ چینی سکینڈل سامنے آنے کے بعد دونوں کے درمیان پیدا ہونے والی دوریاں آج بھی برقرار ہیں۔ یہ دوریاں ختم ہوتی ہیں یا نہیں یا پھر یہ خلا بڑھتا چلا جائے گا اس کا فیصلہ تو وقت اور حالات نے کرنا ہے لیکن فوری طور پر اس کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
جہانگیر ترین نے محنت سے مقام بنایا ہے اور جگہ حاصل کی ہے۔ ایک کاروباری شخصیت کی حیثیت سے وہ ہزاروں لوگوں کے لئے روزگار کا ذریعہ بھی بنے ہیں۔ وہ ایک بڑے اور کامیاب بزنس مین ہیں۔ اس حیثیت میں انہوں نے ملک و قوم کی خدمت تو کی ہے۔ لوگ یہاں اختلاف رائے کر سکتے ہیں لیکن مثبت پہلوؤں کو دیکھا جائے تو کئی ایسی چیزیں نظر آئیں گی جو بہت سے طاقتور افراد کر سکتے ہوں گے لیکن انہوں نے نہیں کیا۔ بہرحال جہانگیر ترین نے عمران خان کے ساتھ مل کر نظریاتی سیاست بھی کی اور ساتھ ہی ساتھ انہوں نے نظریاتی سیاست کو کامیاب بنانے کے لیے پاور پالیٹکس کا تڑکا بھی لگایا اور بظاہر ناممکن دکھائی دینے والے ہدف کو حاصل کر کے سیاسی مخالفین پر یہ ثابت کیا کہ بہتر اور بروقت فیصلے سیاسی میدان میں کامیابی کے لیے کتنے اہم ہوتے ہیں۔ گذشتہ دنوں جہانگیر ترین سے ایک طویل ملاقات میں ملک کے سیاسی حالات پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ جہانگیر خان ترین سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں فوری طور پر کسی بھی سیاسی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان کسی بڑی سیاسی تبدیلی کا متحمل ہوسکتا ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ گزشتہ پچیس تیس برس کے دوران مختلف حکومتوں نے اپنا کردار بہتر انداز میں نہیں نبھایا اور پاکستان کے حقیقی مسائل کو حل کرنے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت تھی وہ نہیں کیے گئے۔ جہانگیر ترین کہتے ہیں کہ پاکستان کے مسائل حل کرنے کے بجائے مختلف حکومتوں نے ملک و قوم کے مسائل میں اضافہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج عام آدمی کے لئے زندگی مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ جہانگیر خان ترین کہتے ہیں کہ ان کی عمران خان کے ساتھ طویل رفاقت اور سیاسی جدوجہد ایک مقصد کے لیے تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ سیاسی جدوجہد سے بھرپور یہ دور میرے سیاسی کیریئر کا ایک یادگار حصہ ہے۔ اس دوران میں نے پاکستان کے نوجوان کی آنکھوں میں ایک نیا جذبہ دیکھا ہے، میں نے بہتر پاکستان کے لیے ولولہ دیکھا ہے، میں نے نوجوانوں میں ملک کی خدمت کی لگن دیکھی ہے۔ اللہ کرے کہ ملک کے نوجوانوں کے خوابوں کو تعبیر ملے۔ پی ٹی آئی کی حکومت عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنے میں کامیاب ہو۔
جہانگیر ترین کہتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے کہ آج وزیراعظم عمران خان کے ساتھ تعلقات ماضی جیسے نہیں رہے لیکن اس کے باوجود وہ آج بھی دل و جان سے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اور وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ہیں۔ زندگی میں اور سیاسی معاملات کے دوران تعلقات میں اتار چڑھاؤ او آتا رہتا ہے۔ عمران خان کے ساتھ احترام کا رشتہ اب بھی قائم ہے۔ عمران خان سے دور ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میرا پاکستان تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جماعت کو جب بھی میری ضرورت ہوگی جب بھی مجھے بلایا جائے گا میری خدمات ہر طرح سے حاضر ہیں۔ میں عمران خان کے ساتھ کسی عہدے، وزارت کے لیے نہیں چلا تھا۔ میرا مقصد ملک میں نئی سیاسی جماعت کو کھڑا کرنا اور عوام کو باری حکومت کرنے والے مفاد پرست عناصر سے چھٹکارہ دلانا تھا۔ ایسے حکمرانوں سے چھٹکارہ دلانا تھا جنہوں نے ملک و قوم کو قرضوں کے جال میں پھنسایا اور نسلوں کو مقروض کر دیا۔ مجھے عمران خان سے کسی عہدے یا کسی بھی قسم کے فائدے کا لالچ نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف ہونے کے باوجود میں آج بھی مقصد سے جڑا ہوں۔ میرا عمران خان سے تعلق مقصد سے تعلق ہے اور وہ مقصد ملک و قوم کی بہتری ہے۔
چینی سکینڈل کے حوالے سے جہانگیر خان ترین کہتے ہیں کہ میرا اس میں کوئی منفی کردار نہیں ہے نہ میں نے کوئی غیر قانونی کام کیا ہے۔ میں یہاں بیٹھا ہوں اپنا کاروبار کر رہا ہوں اور ہر طرح کی تحقیقات کے لیے پہلے بھی خود کو پیش کیا آئندہ بھی حاضر ہوں۔ اس سارے عمل میں کوئی غلطی کوتاہی ضرور ہو سکتی ہے لیکن چینی کی قیمتیں بڑھانے میں میرا کوئی کردار نہیں ہے۔ یہ سارا معاملہ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی، پروڈکشن کاسٹ، انٹرنیشنل مارکیٹ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ جب ملک میں چینی کی فی کلو لاگت میں اضافہ ہوا تو پھر قیمت میں اضافہ کیسے رک سکتا ہے۔ جب بجلی، گیس، پیٹرول، گنے کی قیمت بڑھ جائے تو چینی کی قیمت کیسے کم رہ سکتی ہے۔ جب گنے سے لے کر چینی تیار کرنے والی ہر چیز مہنگی ہو جائے تو پھر چینی ساٹھ روپے فی کلو کیسے فروخت ہو گی۔ میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ حکومت چینی امپورٹ نہ کرے اگر حکومت چینی امپورٹ کرنا چاہتی ہے ضرور کرے لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ہم اپنی صلاحیت کے مطابق ملک میں جتنی چینی کی ضرورت ہوتی ہے وہ پیدا کرتے ہیں۔ حکومت کو کس نے روکا ہے ناجائز منافع خوروں کے خلاف ایکشن نہ کرے، مصنوعی مہنگائی کرنے والوں کے خلاف ایکشن ضرور کرے۔ میں حکومت میں کاروبار کرنے کے لیے تو نہیں آیا تھا میرا بزنس تو پہلے سے چل رہا ہے میں نے کبھی کسی معاملے پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی۔ چودھری صاحب میں اس ملک سے ہوں، یہ میرا ملک ہے۔ میرا سب کچھ اسی ملک سے منسلک ہے۔ جو کچھ ملک نے مجھے دیا ہے وہ لوٹا سکوں تو بہت خوش قسمتی ہو گی۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024