ذہنی بیماریاں جسمانی بیماریوں سے خطرناک ہوتی ہیں۔ کسی قوم کی ترقی، کامیابی اور اخلاقی بلندی کا معیار وہاں کا حکمران بناتا ہے۔ اسی لیے حکمرانوں کے چنائو میں اسلام نے خاص طور پر کردار کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ حکمران کا کردار نیک اور صالح ہونا شرط ہے۔ امین اور صادق ہو لیکن ماشاء اللہ پاکستان میں جس جس طرح کے حکمران ہمارے سروں پر مسلط کئے گئے ہیں۔ دوچار کو چھوڑ کر سبھی بدعنوان پائے گئے۔ یہ سوچ کر میں پریشان ہو جاتی ہوں کہ کیا کبھی پاکستان میں کبھی سُدھار آ سکے گا تو حقائق منہ چڑا کر یہی جواب دیتے ہیں کہ ہمارے جیتے جی تو یہ خواہش پوری نہیں ہو سکتی۔ عوامی سطح پر بھی کرپشن عروج پر ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں آیا جب منحوس خبروں نے ہمارا تعاقب نہ کیا ہو۔ جب قتل و غارت، اغواء ڈکیتی، جنسی ہراسگی، ریپ ، بدچلنی، تشدد، چولہا پھٹنے، کرنٹ لگنے، گلا دبانے، گولیاں مارنے، چھتیں گرنے، حادثات ہونے ، کرپشن کرنے کی خبروں نے ہماری قوم کے اخلاقی دیوالیہ پن کا ثبوت نہ دیا ہو۔ سیاسی دشمنی میں جب موت ننگے پائوں نہ ناچتیہو۔ راز فاش ہونے کے چکر میں سچ بولنے والے کا پراسرار قتل نہ ہوا ہو۔ انسان کی پاکستان میں فقط اتنی قیمت ہے کہ جب تک آپ سچ نہیں بولتے تب تک یہاں زندگی کی ضمانت ہے۔ جہاں سچ بولا آپکی زندگی میں زہر بھر دیا جاتا ہے یا یہ زہر آپکی نسوں میں اتار کر قبر میں سکون پہنچانے کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے۔ ہر روز لگ بھگ سو سے ڈیڑھ سو خبریں آپکے وجود میں چنگاریاں بھر دیتی ہیں۔ پاکستان میں آج بھی پوری طاقت سے جس کی لاٹھی اُسکی بھینس کا اصول لاگو ہے۔ جاہل، ان پڑھ اور جعلی ڈگریوں والے ہمارے سروں پر مسلط ہیں۔
اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں وہ لوگ دیتے ہیں جن کا بی اے اور میٹرک بھی مشکوک ہے۔ اس سے بدترین المیہ کیا ہو گا کہ پاکستان میں وزارتِ تعلیم عموماً انڈر گریجوایٹ اور انڈر میٹرک کے پاس چلی آ رہی ہے۔ اس سے پاکستان کے حکمرانوں کے ذہنی انحطاط کا اندازہ لگا لیں۔ جب یہ کہا گیا کہ جنسی درندگی کرنیوالے بے غیرت، سفاک مجرموں کو سرعام پھانسی دی جائے تو بہت سے وزرائ، سیاستدان اور جہلاء نے مخالفت شروع کر دی۔ اب یہ جہلاء کہتے ہیں کہ کوئی مثال پیش کرو۔ اسلام کا مطالعہ کریں اور اگر تھوڑی بہت عقل ہے تو سوچیں کہ کیا اس درندگی پر سرعام پھانسی نہیں ہونی چاہئے۔ جو لوگ مخالفت کر رہے ہیں ، ایک لمحہ کو سوچیں کہ آپ کی بیٹی یا بیٹے کے ساتھ ایسا ہوتا تو کیا آپ سرعام پھانسی کا مطالبہ نہ کرتے۔ علامہ ساجد میر نے کہا ہے کہ سرعام پھانسی عین اسلامی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ علی محمد نے بھی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی سزائوں پر تنقید کرنیوالے بدترین ظالم ہیں۔ حیرت ہے کہ وزیر قانون نے مخالفت کرتے ہوئے سرعام پھانسی کو اسلام اور آئین سے متصادم قرار دیا ہے۔ بارایٹ لاء کرنیوالوں کو اسلامی تعزیرات کا کیا علم ہو سکتا ہے۔ اسلامی حوالوں اور مثالوں کا مطالبہ کرنے والوں کو اسلام کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ کیا سعودی عرب میں سرعام پھانسی اور سزائوں کو بھول گئے ہیں جہاں ہر جمعہ کو گناہ یا جرم کرنیوالے کا سرقلم کر دیا جاتا ہے لیکن یہاں تو سزائوں کا تصور ہی ناقص ہے۔ ایک شخص منشیات کیس میں باہر نکل کر دندناتا ہے۔ ملک کو لوٹ کر کھا جانیوالے سارے ثبوتوں کے باوجود باعزت طریقے سے بری ہوجاتے ہیں۔
پوری قوم تماشہ دیکھ رہی ہے کہ کوئی بچوں کو ایک وقت کی روٹی کھلانے کیلئے ہزار روپے کی چوری کر لے تو ساری زندگی جیل میں سڑتا ہے لیکن جن لوگوں نے پوری قوم کو لوٹ کر تباہ و برباد کر دیا۔ پوری قوم گروی رکھ دی ، پورا پاکستان بیچ کھایا۔ انہیں کوئی سزا نہیں دی گئی۔ اُن سے ایک دھیلے کی وصولی نہیں کی گئی۔ حکمرانوں کی تنخواہوں میں روز اضافوں کی خبروں نے پوری قوم پر ڈیپریشن طاری کر دی ہے۔ عمران خان کا گزارہ دو لاکھ میں نہیں ہوتا لیکن ملک کے 12 کروڑافراد جن کی تنخواہ دس پندرہ ہزار اور گھر کے افراد کی تعداد سات آٹھ ہے ان سے مطالبہ ہے کہ ٹیکس دیں اور اسی میں گزارہ کریں۔ مہنگائی اور غربت 2020ء میں بڑھے گی جبکہ عمران خان 2020ء کو ترقی کا سال کہہ رہے ہیں۔ لیکن یاد رکھیں پوری قوم عاجز آ چکی ہے۔ جتنا زہر قوم نے ڈیڑھ سال میں پیا ہے۔ 70 سال میں نہیں پیا۔ جب ظلم بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے اور آہ ڈبو دیتی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024