ترک صدر طیب اردگان کا دورہ پاکستان کامیابیوں سے ہمکنار ہوا ۔ پاکستان اور ترکی کے مابین پہلے بھی تعلقات قابل رشک تھے جو اردگان کے دورے سے مزید مضبوط ہوئے۔ انکے دورے کیساتھ ہی تیس کروڑ پاکستانی اور ترک ’’پاک ترک‘‘ شہری بن گئے۔ کوالالمپور کانفرنس میں عمران خان کی عدم شرکت کچھ دوستوں کی خواہش پر خود عمران خان کیلئے تکلیف دہ تھی، اتنا ہی دکھ طیب اردگان کو بھی ہوا جس کا اظہار انہوں نے کانفرنس کے موقع پر سعودی عرب کی طرف اپنی توپوں کا رُخ کرتے ہوئے کیا۔ عمران خان کے جذبات بھی بعدازاں ملائیشیا کے دورے کے موقع پر سامنے آئے۔ کچھ حلقوں کی طرف سے عمران خان کی کوالالمپور کانفرنس میں عدم شرکت پر ملائیشیا اور ترکی کے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں سردمہری کے خدشات بالکل غلط ثابت ہوئے ،جس کا بہت بڑا ثبوت ملائیشیا کا عمران خان کامیاب دورہ اور انکی بھرپور پذیرائی اور ترک صدر کا پاکستان کیلئے اپنے پاکستان کے دورے کے قبل اور دورے کے دوران کا والہانہ پن ہے۔ اُس دوست ملک کو بھی اپنے اپنے رویے کا احساس ہو گیا۔ پاکستان سعودی عرب کے تعلقات میں کشمیر پر واضح موقف کا اظہار نہ کرنے پر بھی سردمہری موجود تھی جس میں مزید اضافہ کوالالمپور کانفرنس سے بھی ہوا۔ اب سعودی سفیر نے کشمیر ایشو پر پاکستان کے موقف کی کھل کر تائید کی ہے۔ گویا حالات بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔ پاکستان کیلئے حالات جس قدر سازگار ہو رہے ہیں اسی قدر بھارت کیلئے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ کشمیر پر امت مسلمہ متحد ہو رہی ہے۔ اتنی متحد ہو جائے کہ کشمیر کی آزادی ممکن ہو سکے، ایسے امکانات دور دور تک نظر نہیں آ رہے۔ ترکی ایران اور ملائیشیا کے سوا چوتھا کوئی اسلامی ملک کشمیر ایشو پر پاکستان کا عملی ساتھ دیتا نظر نہیں آتا۔ البتہ کشمیر کی آزادی کو اگر کسی نے قریب کیا ہے تو وہ نریندرمودی کی جارحانہ پالیساں اور ظالمانہ اقدامات ہیں۔ مودی نے کشمیر پر شب خون مارا وہاں محدود علاقے اور محدود آبادی میں بھی شدید رعمل آیا جسے کنٹرول کرنے کیلئے مودی نے سفاک سپاہ کی تعداد مزید دو لاکھ بڑھا کر ساڑھے نو لاکھ کر دی۔ اسکے باوجود حالات قابو میں نہیں آ رہے۔ اگر حالات بہتر ہو چکے ہوتے تو سات ماہ تک کرفیو کی پابندیاں اور سختیاں پہلے روز کی طرح جاری نہ رہتیں۔ ابھی کشمیر میں بھارت ہزیمت سے دوچار تھا کہ اس نے متنازعہ شہریت قانون منظور کرکے پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروع جبکہ بھارتی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو بغاوت پر آمادہ کر دیا۔ یہ قانون انسانیت کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوئوں کی بھاری اکثریت بھی اسکے خلاف مودی کو لعن طعن کر رہی ہے۔ بھارت میں آزادی کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں۔ مودی نے کشمیر کی طرح بھارت کے اندر بھی سختی سے احتجاج اور مظاہروں کو کچلنے کی کوشش کی مگر کشمیر کے مقابلے میں آبادی اور علاقہ لامحدود ہے۔ کشمیر جیسی پابندیوں کے اطلاق کیلئے 2 کروڑ سیکورٹی اہلکاروں کی ضرورت ہو گی۔ مودی صاحب پھنس چکے ہیں، بری طرح پھنس گئے ہیں۔ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ کشمیر کو سنبھالتے سنبھالتے بھارت بکھرنے کی راہ پر ہے۔ ایسے میں مودی نے دنیا کی توجہ کشمیر میں وقوع پذیر ہونیوالے انسانی المیہ سے میڈیا اور انٹرنیٹ پر پابندیوں کے ذریعے ضرور ہٹا رکھی ہے۔ وہ کشمیر اور بھارت میں احتجاج اور مظاہروں کے خاتمے کیلئے پاکستان کیخلاف مہم جوئی کر سکتا ہے۔ اسے یہ باور کرانے کی ضرورت نہیں کہ یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں۔
مودی نے پاکستان کو دس دن میں فتح کرنے کی دھمکی دی۔ بسم اللہ مودی جی، ست بسم اللہ۔ آیئے پاک افواج استقبال کیلئے تیار ہیں مگر ذرا ٹھہریں! دس دن! یہ دعوے اسلحہ کے انباروں کے زعم میں کیے جا رہے ہیں۔ آپ دس دن میں فاتح ہونے کے تکبر میں جنگ شروع کر سکتے ہیں مگر دس کتنے دنوں مہینوں اور برسوں میں بدلتے ہیں یہ آپ کے اختیار میں نہیں ہوگا اور پھر آپ امریکہ سے زیادہ تو طاقتور نہیں ہیں۔ پاکستان افغانستان کی طرح کمزور بھی نہیں ہے ۔ امریکہ نے بھی دس دن میں فتح کا خواب دیکھا تھا۔ ایسا ہی خوا ب سعودی عرب نے یمن کو تسخیر کرنے کا دیکھا۔ امریکہ کے دس دن 18سال میں بھی پورے نہیں ہوئے۔امریکہ اپنے طور پر اب حقیقی دس دن میں اپنی پیدا کردہ دلدل سے نکلنا چاہتا ہے۔ مودی کیلئے اتنا پیغام ہی کافی ہے۔ دس دن میں پاکستان کو فتح کرنے کا خواب مودی کی خواہشات کی راکھ بن جائیگا۔قارئین میں تمام دوست و احباب کا بے حد مشکور ہوں جنہوں نے میری طبیعت خراب ہو جانے کی وجہ سے میرے لیے ڈھیروں دعائیں کیں۔میں یہ کالم ٹورنٹو کے جنرل ہسپتال سے لکھ رہا ہوں اور ڈاکٹروں کی ایک پوری ٹیم اور پیرامیڈیکل سٹاف میری انتہائی نگہداشت کیلئے ہمہ وقت موجود ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024