سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کا مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے یواین قراردادوں پر عملدرآمد پر زور اور ثالثی کی پیشکش
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹرس نے ببانگ دہل کہہ دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل اور امن کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل ضروری ہے۔ پاکستان کے دورے کے دوران گزشتہ روز دفتر خارجہ اسلام آباد میں وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یواین سیکرٹری جنرل نے اس امر پر زور دیا کہ پاکستان اور بھارت تحمل کا مظاہرہ کریں‘ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پاسداری ہونی چاہیے۔ انہوں نے باور کرایا کہ امن و سلامتی صرف اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل سے ہی ممکن ہے۔ اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کنٹرول لائن پر خدمات سرانجام دیتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے انسداد دہشت گردی کیلئے کلیدی قربانیاں دیں‘ دنیا ان قربانیوں کا ادراک کرے۔ انہوں نے جموں و کشمیر اور لائن آف کنٹرول پر جاری کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ دونوں ممالک کو مستقل تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ انکے بقول اقوام متحدہ کے چارٹر اور سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے مطابق صرف ڈپلومیسی اور مذاکرات سے ہی امن و استحکام ممکن ہے۔ اگر دونوں ملک چاہیں تو میں اس سلسلہ میں کردار ادا کرنے کو تیار ہوں۔ میرے دورہ پاکستان کا بنیادی مقصد اصل پاکستان کی منظرکشی کرنا ہے جس میں بے پناہ صلاحیت ہے۔ دریں اثناء یواین سیکرٹری جنرل اور وزیر خارجہ پاکستان کے مابین ملاقات کے دوران بھارت کے زیرقبضہ جموں و کشمیر میں مسلسل لاک ڈائون پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور بھارتی جنگی رویے اور لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کو علاقائی اور عالمی امن کیلئے خطرہ قرار دیا گیا۔ یواین سیکرٹری جنرل نے زور دیا کہ جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی پوزیشن اقوام متحدہ کے منشور بشمول تنازعات کے پرامن حل اور سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے تابع ہے۔
بھارت کی تو گزشتہ 50 سال سے یہی کوشش رہی ہے کہ وہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے یواین جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی منظور کی گئی قراردادوں پر عملدرآمد کی نوبت نہ آنے دے چنانچہ اس نے ان قراردادوں کو غیرمؤثر بنانے اور ان پر عملدرآمد نہ ہونے دینے کیلئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کئے۔ سب سے پہلے بھارتی لیڈران جو کشمیر کو متنازعہ بنا کر اسکے حل کیلئے درخواست لے کر اقوام متحدہ گئے تھے‘ خود ان قراردادوں سے منحرف ہوئے اور کشمیر پر بھارتی اٹوٹ انگ کا راگ الاپنا شروع کر دیا جبکہ بھارت نے اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا تاہم ایسے تمام بھارتی ہتھکنڈے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دبانے کیلئے غیرمؤثر ثابت ہوئے اور کشمیری عوام نے بھارتی فوجوں کے آگے سینہ سپر ہو کر‘ ریاستی جبر کو چیلنج کرتے ہوئے اور بے بہا جانی اور مالی قربانیاں دیکر بھارتی جبروتسلط سے اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھی۔ اس طرح بھارت کا قرار دیا گیا اٹوٹ انگ کشمیر ہمیشہ اسکے گلے میں اٹکا رہا اور کشمیری عوام نے ہر کٹھ پتلی اسمبلی کا بائیکاٹ کرکے دنیا پر واضح کیا کہ وہ بھارت کا اٹوٹ حصہ ہرگز نہیں بلکہ بھارت نے اس پر جبری تسلط جمایا ہوا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان ہی نہیں‘ چین سمیت دنیا کے دیگر بیشتر ممالک نے بھی کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کر رکھا ہے اور وہ یواین جنرل اسمبلی‘ سلامتی کونسل اور دوسرے عالمی اور علاقائی فورمز پر کشمیریوں کے استصواب کے حق کیلئے آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ اسی حوالے سے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنی حالیہ اشاعت میں عالمی سرچ انجن ’’گوگل‘‘ کے تضاد کو بے نقاب کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ گوگل کے آن لائن نقشوں پر صرف بھارت کے نقشے میں جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے جبکہ بھارت سے باہر کی باقی دنیا کے نقشوں میں جموں و کشمیر کی حیثیت ایک متنازعہ علاقے کے طور پر موجود ہے اوراقوام متحدہ کی قراردادوں کے ناطے مقبوضہ کشمیر کی یہی حیثیت اقوام عالم میں تسلیم شدہ ہے۔ گزشتہ ہفتے ترک صدر رجب طیب اردگان نے بھی اپنے دورہ پاکستان کے موقع پر جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو اپنا موقف قرار دیا اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے آواز اٹھائی۔
بھارت نے یواین جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی قراردادیں غیرمؤثر بنانے کیلئے ایک چال 1972ء میں اس وقت چلی جب پاکستان سانحۂ سقوط ڈھاکہ اور اپنے 90 ہزار سے زائد فوجیوں کے جنگی قیدی کی حیثیت سے بھارت کی تحویل میں ہونے کے باعث انتہائی کمزور پوزیشن میں تھا‘ اس وقت اندراگاندھی نے وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو دورۂ بھارت کی دعوت دی اور شملہ میں دوطرفہ مذاکرات کے دوران اپنی مرضی کا دوطرفہ معاہدہ کرایا جس کے تحت پاکستان کو پابند کردیا گیا کہ وہ کسی بھی قسم کے دوطرفہ تنازعات کسی عالمی یا علاقائی فورم پر لے کر نہیں جائیگا اور یہ تنازعات پاکستان اور بھارت خود دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے طے کرینگے مگر بھارت نے اس معاہدہ کو بھی یوں ناکام بنایا کہ اس نے کشمیر ایشو پر آج تک کسی بھی سطح کے دوطرفہ مذاکرات کی نوبت نہیں آنے دی اور پاکستان کی جانب سے کشمیر کا تذکرہ ہوتے ہی مذاکرات کی ہر میز الٹاتا رہا ہے چنانچہ پاکستان نے اسی بنیاد پر کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے عالمی اور علاقائی فورموں پر آواز اٹھانا شروع کی۔ بھارت نے اپنی چالبازیوں سے نہ صرف سلامتی کونسل میں کشمیر ایشو کو اجاگر کرنے کی راہیں مسدود کیں بلکہ اس نے علاقائی تعاون کی تنظیم سارک کو بھی عملاً اپنی باندی بنالیا اور اس کا اپنی من مرضی کا ایجنڈا طے کرنا شروع کر دیا جس میں کشمیر کو شجر ممنوعہ بنا دیا گیا۔ سارک سربراہ کانفرنس کا اجلاس چار سال قبل اسلام آباد میں ہوناطے ہوا تھا جس کے انعقاد کی بھارت نے آج تک نوبت ہی نہیں آنے دی۔
بھارت کی بی جے پی سرکار کا چونکہ پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کا اپنا ایجنڈا تھا جس کا وزیراعظم نریندر مودی اعلانیہ اظہار بھی کرتے رہتے ہیں اس لئے انہوں نے اپنے اقتدار کے آغاز ہی میں پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی بڑھالی اور اسکی سلامتی کیخلاف سازشوں کیلئے کشمیر اور پانی کے تنازعہ کو فوکس کرلیا تاکہ پاکستان کو کشمیر کے راستے سے آنیوالے اسکے دریائوں کے پانی سے یکسر محروم کرکے خشک سالی اور قحط سالی سے دوچار کیا جاسکے جس کیلئے مودی پاکستان کو پانی کی ایک ایک بوند سے محروم کرنے کے دعوے بھی کرتے رہے ہیں۔ یہ امر واقع ہے کہ جب بھارتی سکیورٹی فورسز کے جبر کے نتیجہ میں نوجوان کشمیری لیڈر برہان مظفروانی شہید ہوئے تو کشمیریوں کی جدوجہد نے ایک نیا رنگ اختیار کرلیا اور سوشل میڈیا کو متحرک کرکے نوجوان کشمیریوں نے پوری دنیا کے سامنے بھارتی مظالم کو اجاگر کرنا شروع کر دیا۔ مودی سرکار نے ان پر پیلٹ گنوں کا استعمال شروع کیا تو نوجوان کشمیریوں نے اپنی جانیں نچھاور کرتے ہوئے مودی سرکار کے اس ہتھکنڈے کو بھی ناکارہ بنادیا جبکہ مودی سرکار کے یہ مظالم پوری دنیا پر اجاگر ہونے لگے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے دنیا بھر میں مودی سرکار ہدف تنقید بننا شروع ہوئی تو مودی نے مقبوضہ کشمیر کو مستقل طور پر ہڑپ کرنے اور پاکستان سے ملحقہ آزاد کشمیر پر بھی شب خون مارنے کی جنونی منصوبہ بندی طے کرلی۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے گزشتہ سال 5 اگست کو بھارتی پارلیمنٹ کے ذریعے بھارتی آئین کی دفعات 370 اور 35الف کو آئین سے حذف کرادیا اور اس اقدام کیخلاف ممکنہ احتجاج کو روکنے کیلئے پوری مقبوضہ وادی کو کرفیو کے حوالے کر دیا۔ کشمیری عوام گزشتہ 197 روز سے اس کرفیو کی زد میں ہیں اور اپنے گھروں میں عملاً محصور ہوچکے ہیں جبکہ اس جنونی بھارتی اقدام کیخلاف انسانی حقوق کے تمام علاقائی اور عالمی فورموں‘ پارلیمنٹوں اور عالمی قیادتوں کی جانب سے بھارت کی مذمت کرنے‘ کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرنے اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سلامتی کونسل کی قراردادیں روبہ عمل لانے کا بھرپور تقاضا کیا جارہا ہے۔ خود سلامتی کونسل نے اس عرصہ کے دوران اپنے دو ہنگامی اجلاس طلب کرکے اپنی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر حل کرنے پر زور دیا ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ مودی سرکار کی پیدا کردہ سرحدی کشیدگی پر علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے حوالے سے دنیا بھر کی قیادتوں کو بھی گہری تشویش لاحق ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کیلئے مسلسل پانچ بار پیشکش کرچکے ہیں اور بھارت نے ہر پیشکش رعونت کے ساتھ مسترد کی ہے۔ اب یواین سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹرس نے اپنے دورۂ پاکستان کے موقع پر جہاں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے یواین قراردادوں کو روبہ عمل لانے کی ضرورت پر زور دیا ہے وہیں پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کی بھی پیشکش کی ہے جو اس حوالے سے خوش آئند ہے کہ اس سے کشمیر کے حوالے سے منظور کی گئی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی قراردادیں پھر سے زندہ ہو گئی ہیں اور کشمیر پر اٹوٹ انگ والی بھارتی ہٹ دھرمی باطل ثابت ہورہی ہے۔
اگر یواین سیکرٹری جنرل اور دوسری عالمی قیادتیں یواین قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر حل کرانے میں فی الواقع سنجیدہ ہوں تو یہ حل انکے اپنے بس میں ہے۔ وہ اقوام متحدہ کے فورم پر بھارت پر دبائو ڈال کر اسے یواین قراردادوں پر عملدرآمد کی راہ پر لاسکتی ہیں۔ کسی قسم کے مذاکرات کے ذریعے تو اس دیرینہ مسئلہ کے حل کی بہت کم امید ہے کیونکہ بھارت تو پہلے ہی مذاکرات کی ہر میز الٹاتا رہا ہے۔ اس تناظر میں یواین سیکرٹری جنرل خود مدبرانہ کردار ادا کریں اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی قیادتوں کو اس معاملہ میں بھارت پر دبائو ڈالنے کیلئے قائل کریں۔ یہ حقیقت ہے کہ عالمی اور علاقائی امن و سلامتی کا مسئلہ کشمیر کے حل پر ہی دارومدار ہے۔ اگر پاکستان اور بھارت کے مابین یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو بھارتی جنونیت کے ہاتھوں کسی بھی وقت علاقائی اور عالمی تباہی کی نوبت آسکتی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024